ارشد شریف قتل کیس: تحقیقاتی ٹیم سےآئی ایس آئی کے افسر کو نکالنے کی استدعا مسترد

سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران مقتول ارشد شریف کی بیوہ نے اسپیشل جے آئی ٹی سے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران کو نکال کر ریٹائرڈ پولیس افسران کی شمولیت کو استدعا کی تاہم عدالت نے اسے مستردکرتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ ملازم کو تحقیقاتی ٹیم میں شامل نہیں کر سکتے ہیں ، آپ کو ملکی اداروں کو اعتماد کرنا چاہیے

سپریم کورٹ نے مقتول صحافی ارشد شریف کی بیوہ کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی سے آئی ایس آئی اور ایم آئی کی جگہ دیگر افسران کو شامل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔ جسٹس اعجاز لاحسن نے ریمارکس دئیے کہ تحقیقات میں اقوام متحدہ کی شمولیت پر  وزارت خارجہ سے بات کی جائے۔

سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت اسپیشل جے آئی ٹی کے ارکان، پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی مراد سعید اور ارشد شریف کی بیوہ بھی کمرے  میں موجود تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

ارشد شریف کے پاکستان چھوڑنے کی وجوہات کی تحقیقات کی جائیں، سپریم کورٹ

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں اب تک کی پیش رفت سے متعلق رپورٹ جمع کروائی جس کے مطابق اسپیشل جے آئی ٹی نے 41 لوگوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔جن میں مقتول کے ورثا کے علاوہ مخلتف شعبوں کے ماہرین بھی شامل ہیں۔

پیش رفت رپورٹ میں  بتایا گیا ہے کہ  تحقیقات کینیا، امارات اور پاکستان 3 حصوں پر مشتمل ہے۔ جے آئی ٹی انکوائری کیلیے پہلے امارات اور پھر وہاں سے کینیا جائے گی۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ جے آئی ٹی نے جن 41 لوگوں سے انکوائری کی، کیا وہ پاکستان میں ہیں؟۔ کیا جے آئی ٹی نے کسی سے ویڈیو لنک کے ذریعے انکوائری کی ہے؟۔

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو لوگ باہر ہیں ان سے پہلے کینیا جاکر انکوائری ہوگی۔ کینیا میں ان لوگوں سے تحقیقات کے بعد انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی نے ابتدائی رپورٹ میں جو انکشافات کیے ہیں انھیں فی الوقت منظر عام پر نہیں لایا جاسکتا ہے ۔

صحافی ارشد شریف کی بیوہ نے دوران سماعت روسٹرم پر آکر کہا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی افسران کی شمولیت پر اعتراض ہے۔ ان کی جگہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طارق خان اور پولیس افسر اے ڈی خواجہ کو شامل کیا جائے۔

عدالت نے ارشد شریف کی بیوہ کی یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی بنائی گئی ہے، انھیں کام کرنے دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم  ریٹائرڈ لوگوں کو جے آئی ٹی میں شامل نہیں کر سکتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ  جے آئی ٹی کو کام کرنے دیں  اور ملکی اداروں پر اعتماد کریں۔ بعض اوقات ماتحت بھی بہت کچھ کر جاتے ہیں۔ جے آئی ٹی نے جو اقدامات کیے وہ 20 دن پہلے کیے جانے چاہییں تھے۔ امید ہے جے آئی ٹی آئندہ یہ بات ذہن نشین رکھے گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کینیا کی اتھارٹی متعلقہ افراد کو پیش کرنے کے لیے تیار ہے؟۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے ذریعے کینیا کے جن لوگوں سے تحقیقات کرنی ہیں، ان کے نام دیے ہیں۔کل ہی یہ خط لکھا گیا ہے۔ جے آئی ٹی کو وزارت خارجہ کی مکمل مدد حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حکومت ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات سے راہ فرار اختیار کرنے لگی

ایڈشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے دوبئی اور کینیا کی حکومت کو ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں باہمی قانونی معاونت دینے کی استدعا کی ہے لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

انھوں نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت نے ان ممالک کو باہمی قانونی معاونت کے لیے تاخیر سے خط کیوں لکھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ تحقیقات کے 3 فیز ہیں۔ پاکستان، دبئی اور کینیا۔ کیا فیز 1 کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں؟۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیز 1 کی تحقیقات تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کے سوال پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تحقیقات مکمل ہونے کی ٹائم لائن نہیں دی جاسکتی۔ جے آئی ٹی پہلے دبئی، پھر کینیا تحقیقات کرے گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا امکان ہے کہ تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے  جواب دیا کہ ضرورت پڑے گی تو یہ آپشن بھی موجود ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کے لیے وزارت خارجہ سے ڈسکس کریں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ تحقیقات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر رہے ہیں۔ عدالت جے آئی ٹی کو تحقیقات کے لیے آزادی دے رہی ہے۔ معاملے کی صاف شفاف تحقیقات ہونی چاہییں۔عدالت صاف شفاف تحقیقات کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ارشد شریف کی اہلیہ کا کینیا کے صدر کو خط، فوری انصاف کی فراہمی کا مطالبہ

بینچ میں موجود جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے سب کے سیکشن 161کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں، جس پر ڈی آئی جی اویس نے عدالت کو بتایا کہ تمام لوگوں کے بیانات سیکشن 161 کے تحت ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ اگر سیکشن 161 کے تحت بیان ریکارڈ نہیں ہوئے تو پھر اب تک کوئی کام نہیں ہوا۔عدالت نے ارشد شریف قتل کے از خود نوٹس کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔

متعلقہ تحاریر