پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت غیرمستحکم ہے، سینیٹر اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ریورس کیا جس کی وجہ سے مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدہ کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سابق حکومت نے 20 اور 22 میں آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئے معاہدوں کو ریورس کیا ، آئی ایم ایف کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ حکومت پر کون بیٹھا ہے ، انہیں بس یہ ہوتا ہے کہ فلاں ملک نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔
ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں صنعتوں کاروں اور تاجر برادری کے رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کیا۔ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی جس کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں۔ ہم ان مشکلات میں پوری کوشش کررہے ہیں کہ تمام سابقہ کمٹمنٹس پوری ہوں۔ ظاہر ہے اس کا اچھا خاصہ بوجھ بزنس کمیونٹی اور عام آدمی پر پڑا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سوئی سدرن کیلیے گیس 45 فیصد اور سوئی ناردرن کیلیے 50فیصد مہنگی کرنیکا فیصلہ
وفاق کے بعد صوبائی حکومتوں نے الیکشن بجٹ 2023-24 کی تیاری شروع کردی
ان کا کہنا تھا کہ بجلی قیمتیں ، گیس کی قیمتیں اور جنرل مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ مسائل ایک دن میں حل نہیں ہوسکتے۔ آپ آئیں اور بٹن آف آن کریں اور مسائل حل ہو جائیں۔ 2013 اور 1998 میں جو چیلنجز تھے وہی چیلنجز آج بھی ہیں۔ ہم ان نے چیلنجز کو قبول کیا ہے اور امید ہے کہ ہم مسائل کو حل کرلیں گے۔ لیکن وقت لگے گا۔ 1998 اور 2013-14 میں بھی ہم مشکل سے نکل آئے تھے۔ 2017 میں ہماری معیشت بہت بہتر تھی، دنیا کا ہر ادارہ تعریف کررہا تھا ، اسٹاک مارکیٹ بیسٹ ان ساؤتھ ایشیا ہو گئی تھی ، زرمبادلہ کے ذخائر اپنی پیک پر تھے ، مہنگائی کی سطح کم ترین پر چلے گئی تھی۔ خوراک انفلیشن 2 فیصد تھی ، جنرل مہنگائی صرف 4 فیصد تھی۔ جب 2017 میں ، میں نے چھوڑا تو پالیسی ریٹ 5.5 فیصد تھا۔ پاکستان بہترین سمت میں گامزن تھا۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت غیرمستحکم ہورہی ہے۔ ان کا کہنا تھا ملک کو مشکلات سے نکالیں گے۔ 2017 میں جو معیشت عالمی سطح پر 24ویں نمبر پر تھی 2023 میں وہی معیشت 47ویں نمبر پر چلے گئی۔ یہ ہم سب کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم آسانی سے اس سے نکل سکتے ہیں اس کی دو آسان سی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ہم یہ کہیں کہ ہم نے اس کی ذمہ داری نہیں لینی۔ جب میں انگلینڈ میں تھا یہ میاں نواز شریف کی مشاورت میں یہ بات کی گئی کہ اس حکومت کو چلنے دیا جائے تاکہ جتنی تباہی ہونی ہو جائے۔ ہم جانتے تھے یہ مشکل فیصلہ ہے مگر ہم نے وہ مشکل فیصلہ لیا۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ سیاست ہوتی رہی ہے ، ہم نے ملک کی خاطر سیاست کی قربانی کا فیصلہ کیا۔ پی ڈی ایم کے تمام جماعتوں نے فیصلہ تو ہم نے یہ زمہ داری لے لی۔