آرٹیکل 188 عدالت کو فیصلے پر نظرثانی کا اختیار دیتا ہے، اٹارنی جنرل

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے ای سی پی کی نظرثانی کی درخواست اور سپریم کورٹ پریٹکس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن کیس پر عدالتی فیصلے پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست پر دوبارہ سماعت شروع کی اور فیصلے کے قانون پر بھی نظرثانی کی درخواستوں پر بھی سماعت کی۔

درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 188 کے تحت عدالت کو فیصلے پر نظرثانی کا اختیار ہے اور اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

بلاول بھٹو بجٹ بعد میں پاس کرائیں ، پہلے سیلاب متاثرین کے 9 ارب ڈالر کا حساب دیں

نجم ثاقب آڈیو لیک کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کی اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کیلئے 4 ہفتوں کی مہلت

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت مقدمات اور اپیلوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نظرثانی کی درخواستوں اور اپیلوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیسے کیا جاسکتا ہے، عدالت کو حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔

منصور عثمان اعوان کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اختیارات پر کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت مقدمات میں نظرثانی کا الگ دائرہ اختیار ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نظرثانی اپیلوں کے حق کے ذریعے کسی کا حقوق کا استحصال مقصود نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک آئینی معاملے پر پورے آئین کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ زیر غور قانون سے پہلے آرٹیکل 184(3) کے تحت مقدمات میں نظرثانی کا کوئی آپشن نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانون سازی سے کسی کا استحصال نہیں ہوا ہے۔

چیف جسٹس بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت مقدمات میں اپیل کا حق دینے کا فیصلہ مکمل غور و خوض کے بعد کرنا ہوگا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اے جی پی چاہتے ہیں کہ عدالت اپیل کا لفظ قانون سے حذف کر دے؟۔

متعلقہ تحاریر