کیا آرٹس کونسل کراچی کے انتخابات سیاسی ہیں؟

مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ اور اُن کے پینل کی حمایت کی ہے لیکن اُنہوں نے سیاسی حمایت سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی ہے

فن اور ثقافت کے فروغ کے لیے قائم کیے جانے والے ادارے غیر سیاسی رہیں تو معاملات بہتر انداز سے چلتے ہیں۔ لیکن جب فنون سے منسلک اداروں میں سیاست کا عمل دخل بڑھنے لگے تو حالات بگڑنے لگتے ہیں۔ کراچی آرٹس کونسل کے انتخابات سیاست کی بیساکھیاں لیے کھڑے ہیں جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔

گزشتہ روز وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کیا۔ جس میں آرٹس کونسل انتخابات کے تناظر میں اُنہوں نے احمد شاہ اور اعجاز فاروقی کے پینل کی حمایت کرنے کی گزارش کی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہےکہ رہنما ایم کیو ایم پاکستان فیصل سبزواری اور پیپلز پارٹی کے سعید غنی دونوں ہی کراچی آرٹس کونسل کے ممبر ہیں۔ دونوں نے ہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر احمد شاہ کو ووٹ دینے کی اپیل بھی کی ہے۔ لیکن احمد شاہ کے مخالف پینل کو بظاہر پی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہے لیکن اُنہوں نے کبھی کھل کر کسی پینل کی حمایت نہیں کی۔

فیصل سبزواری

فیصل سبزواری کی اس پوسٹ کے تبصروں میں آرٹسٹ رفیع ریاض نے برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے لکھا کہ احمد شاہ صاحب کون ہیں؟ کیا وہ آرٹسٹ ہیں؟ شاعر ہیں؟ ادیب ہیں؟ جب احمد شاہ صاحب کا تعلق آرٹ کے کسی شعبے سے نہیں تو آرٹس کونسل کی عمارت احمد شاہ بلڈنگ کے نام سے کیوں پکاری جاتی ہے؟

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس شہر میں مشتاق احمد یوسفی نہیں تھے؟ رفیع ریاض نے متعدد نام گنوائے جو ان کے خیال میں صدر آرٹس کونسل بننے کے اہل ہیں۔

رفیع ریاض

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آرٹس کونسل کو منتخب گورننگ باڈی چلاتی ہے جسے سندھ حکومت سے فنڈنگ ملتی ہے۔ ادارے کا آڈٹ بھی سندھ حکومت ہی کرتی ہے۔

 آرٹس کونسل کراچی 1860ء کے رجسٹرار آف سوسائٹیز کے ایکٹ 21 کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ اس کی رجسٹریشن مئی 1955ء میں ہوئی تھی۔ اس ایکٹ کے تحت سوسائٹیز کو اپنے آڈٹ شدہ نہیں بلکہ غیر آڈٹ شدہ گوشوارے جمع کرانے ہوتے ہیں۔

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے بلاشبہ 13 سالہ دور صدارت میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائی ہیں۔ سالانہ عالمی اردو کانفرنس کی بات کریں یا مختلف فیسٹولز کی، ہر میلے نے اپنا رنگ دکھا کر کامیابی سمیٹی اور اس کا سہرا احمد شاہ صاحب کو جاتا ہے۔

پاکستان کے معروف مزاح نگار انور مقصود نے 13ویں عالمی اردو کانفرنس میں اپنے زبردست سیشن سے میلہ لوٹ لیا۔ اپنے مخصوص انداز میں طنز و مزاح کرتے ہوئے وہ آرٹس کانسل کے انتخابات کو بھی زیر بحث لائے۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال انتخابات سے قبل احمد شاہ صاحب اردو کانفرنس کرواتے ہیں۔ کانفرنس کامیاب ہوجاتی ہے اور وہ دوباہ صدر بن جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سال بھی حالات بتا رہے ہیں کہ احمد شاہ صاحب ہی صدر منتخب ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

کرونا نے عالمی اردو کانفرنس کی طرز کو تبدیل کردیا

آرٹس کونسل کراچی کے مقابلے میں لاہور کی الحمرا آرٹس کونسل کی بات کریں تو وہاں معاملے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔ الحمرا آرٹس کونسل ایک خود مختار ادارہ ہے جو اپنے بورڈ آف گورنرز کے زیر انتظام کام کرتا ہے۔ اس کی منظوری وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے دی جاتی ہے اور گوشواروں کا آڈٹ بھی حکومت پنجاب کرتی ہے۔

الحمرا کے بورڈ آف گورنرز میں 11 عوامی شخصیات اور 6 سرکاری ممبر شامل ہیں۔ اس کی سربراہی ایگزیکٹو ڈائریکٹرکرتے ہیں اور شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹرز معاونت کرتے ہیں۔

الحمرا کے بورڈ آف گورنرز کی چیئرپرسن فیض احمد فیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی ہیں۔ جبکہ ممبران میں امجد اسلام امجد اور سہیل وڑائچ سمیت دیگر اہم نام شامل ہیں۔

الحمرا
AKTC

 آرٹس کونسل کراچی کے انتخابات سے متعلق سیاستدانوں کی حمایت ایک طرف، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اب تک احمد شاہ کی جانب سے بھی سیاسی عمل دخل یا حمایت سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ انتخابات سے قبل صدر آرٹس کونسل بذات خود سیاست دانوں کو حمایت سے روک دیں۔

متعلقہ تحاریر