پسِ پردہ ہاتھ حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان حائل خلیج پاٹنے کے خواہاں

حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے۔ پی ڈی ایم پریشانی کا شکار لگتی ہے کیونکہ اس کے رہنما دوری بڑھا رہے ہیں۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور حکومت میں موجود جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان حائل خلیج کے کم ہونے کی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور جمہوری نظام کو بچانے کے لیے پسِ پردہ قوتیں میدان میں آگئی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جرنل محمد علی درانی اچانک سامنے آگئے ہیں۔ جمعرات کو انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کی ہے۔ محمد علی درانی نے شہباز شریف کو حکومت سے مذاکرات کا درمیانی راستہ نکالنے کے لیے فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا کا پیغام پہنچایا۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف مثبت دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ حکومت سے مذاکرات کرنے اور درمیانی راستہ تلاش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اور پی ڈی ایم کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا۔

دریں اثناء پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی بظاہر خود کو پی ڈی ایم سے دور کرلیا ہے۔ کیونکہ مردان کے حالیہ جلسے میں نا تو بلاول شریک ہوئے اور نا ہی اُنہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ اِس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے پنجاب کے صدر قمر الزماں کائرہ نے یہ بیان بھی دیا کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی سے استعفے دینے اور سینیٹ اور ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں ہے۔

اور اسی دوران سیاسی منظر نامے میں حالیہ پیشرفت کے بعد حکومت کی طرف سے بھی برف پگھلی ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے خارج کردیا گیا ہے اور وہ امریکا روانہ ہوجائیں گے۔ وہ اپنی ہمشیرہ اور بہنوئی کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے امریکا جانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے دور ہو رہی ہے؟

تاہم محمد علی درانی اور شہباز شریف کی ملاقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں دو دھڑوں میں تقسیم ہورہی ہیں۔ آصف زرداری اور شہباز شریف کا دھڑہ بظاہر حکومت کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانے کے لیے تیار ہے۔

جبکہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اُن کے والد  اور ن لیگ کے بانی نواز شریف اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف سخت رویہ اپنایا ہوا ہے۔

مریم نواز نے جمعہ کو ٹوئٹر پر جاری پیغام میں حکومت سے کسی بھی طرح کے الزامات کو مسترد کردیا۔

جبکہ سنیچر کو لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ”پی ڈی ایم متفق ہے کہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔ بلاول بھٹو یا مریم نواز کے کہیں نا شریک ہونے سے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم میں دراڑ پڑ گئی ہے، مجھے ان کی ذہنی حالت پر ترس آتا ہے۔‘‘

انہوں نے استعفے دینے کی حتمی تاریخ بتانے کے بجائے کہا ”جب استعفے دیں گے تب پتہ چل جائے گا۔‘‘

دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی 27 دسمبر کو شہید بےنظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں جلسہ کر رہی ہے۔ تاہم میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں کے مطابق مولانا فضل الرحمان جلسے میں شرکت نہیں کریں گے۔

پیپلزپارٹی کا مبہم رویہ جلسے میں پارٹی قائدین کے خطاب کے بعد واضح ہوجائے گا۔ جلسے کے بعد ظاہر ہوگا کہ پی ڈی ایم کا مستقبل یقینی طور پر کیا ہوگا؟ کیونکہ حزبِ اختلاف کی جانب سے 31 جنوری کی گئی ڈیڈ لائن قریب آر ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم کے سربراہ کی جماعت سے پی ڈی ایم مخالف بیانات

متعلقہ تحاریر