سال 2020 : پنجاب اسمبلی کی بیشتر قائمہ کمیٹیز غیر فعال

سال 2020 میں بھی قائمہ کمیٹیز کو فعال نہ کیا جا سکا جس کی وجہ سے پنجاب کا پارلیمانی نظام متاثر ہوا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا ایوان سال 2020 میں مچھلی منڈی بنا رہا۔ یہ سال بھی پنجاب کے پارلیمانی نظام کے لیے کچھ اچھا ثابت نہ ہوسکا۔ قائمہ کمیٹیاں بھی مکمل تشکیل نہ دی جا سکیں۔ جو قائمہ کمیٹیز تشکیل دے دی گئی تھیں اُنھیں فعال نا کیا جا سکا جس کی وجہ سے پنجاب کا پارلیمانی نظام متاثر رہا۔ حکومت اور اپوزیشن سال 2020 میں آمنے سامنے رہے۔

پنجاب اسمبلی کی کارکردگی پر نظر ڈالیں توسال 2020ء میں پنجاب اسمبلی کے کل 9 اجلاس منعقد ہوئے جن میں سب اہم بات یہ رہی کہ صوبے کا بجٹ اجلاس سال 2020-21 پنجاب اسمبلی کے بجائے مقامی ہوٹل میں پیش کیا گیا اوروہیں منظور بھی کرلیا گیا۔ بین الاقوامی وباء کے باعث تاریخ میں پہلی مرتبہ بجٹ اجلاس ایک مقامی نجی ہوٹل میں پیش اور منظور کیا گیا۔ پورا سال کرونا چھایا رہا جس کی وجہ سے اجلاس بھی محدود ہوتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کا داخلہ بھی محدود رہا۔ اسی سال اسمبلی کی ایک خوبصورت مسجد کی بھی تکمیل ہوئی۔

سال 2020 کے اجلاسوں اور بلوں کا جائزہ

سال 2020 میں وقفے وقفے سے کُل 157 روز تک اجلاس چل سکا جن میں51 دن کام کے ہیں اور 52 ایام کرونا کی وجہ سے اجلاس کی چھٹیاں کرنی پڑیں۔ دوسری طرف سال 2020 میں پنجاب اسمبلی کے 9 اجلاسوں میں تحفظ اسلام بل سمیت کل 19 بلزکی منظوری دی گئی۔ ان بلزمیں سب سے اہم بل ‘تحفظ اسلام’ بل اور قائمہ کمیٹیزکو بااختیار بنانے کا بل بھی شامل ہے۔ اِس کے تحت قائمہ کمیٹیزاز خود کارروائی کرسکیں گی۔

سال 2020 کی قراردادیں

پنجاب اسمبلی کے سال 2020 میں کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کے حق اورفرانس میں سرکاری سطح پر ہونے والی توہین رسالت ﷺ کے خلاف متفقہ قراردادوں کی منظوری سمیت مفاد عامہ کے حوالے سے کُل 21 قراردادوں کی منظوری دی گئی۔ اس سال 300 سے زیادہ تحاریک التوائے کار ایوان میں پیش کی گئیں۔ جن کے جوابات کے لیے محرک کو ایک لمبا عرصہ انتظار کرنا پڑا۔ 2020 بھی حکومت پنجاب کے پارلیمانی نظام کو مکمل طور پرفعال کرنے میں ناکام رہا۔

پنجاب اسمبلی
ایکریس ٹریبیون

قائمہ کمیٹیوں کی صورتحال

پنجاب اسمبلی کی 41 قائمہ کمیٹیز میں سے صرف 22 کمیٹیز کے چیئرمین منتخب ہوسکے اور ان میں سے بھی متعدد ایسی ہیں جن کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوسکا۔ حکومت بھی اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے قائمہ کمیٹیزسے کام لینے کی بجائے خصوصی کمیٹیزبنا کر پنجاب کے پارلیمانی نظام کو دھکا لگا کر چلاتی رہی۔ جس پرحزب اختلاف نے منظور کیے جانے والے بلزپر اعتراضات کیے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں ان بلز کی منظوری کے خلاف عدالت جانے کا اعلان بھی کر چکی ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے

اپوزیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ون کا چیئرمین نہ بنانے کی وجہ سے اس سال بھی قائمہ کمیٹیوں کا بائیکاٹ جاری رہا۔ حکومت نے لوکل گورنمنٹ آڈٹ کے بزنس کو نمٹانے کے لیے ایک تیسری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی منظوری دی تھی لیکن وہ بھی فعال نہ ہوسکی۔ جس سے آڈٹ کا بزنس جوں کا توں رہا اور قائمہ کمیٹیزمکمل طور پر فعال نا ہونے کی وجہ سے پنجاب کا پارلیمانی نظام غیرموثررہا۔

یہ بھی پڑھیے

گلگت بلتستان میں آزاد اراکینِ اسمبلی کا فیصلہ کُن کردار

حکومت نے قانونی بلزکی منظوری کے لیے 13 اسپشل کمیٹیز کا سہارا لیا جو کہ قائمہ کمیٹیز کی موجودگی میں قانون کے خلاف ہے۔ اس سال بھی حزب اختلاف کی جانب سے اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایوان کے اندر اور باہر احتجاج اور ایک دوسرے خلاف نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا۔ حکومت اورحزب اختلاف کے درمیان سال بھر محاذ آرائی کا سلسلہ تھم نہ سکا اور ایوان میں ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف نعرے بازی ہوتی رہی۔ پنجاب اسمبلی کا ایوان متعدد اجلاس میں مچھلی منڈی کا بھی منظر پیش کرتا رہا۔

سال 2020 کا آخری اجلاس

حکومت کی جانب سے بلایا جانے والا پنجاب اسمبلی کا آخری اجلاس دسمبر کے دوسرے ہفتے بلایا گیا مگر اس اجلاس میں اپوزیشن نے حکومت کا بزنس ہی نہیں چلنے دیا اور اپوزیشن کا احتجاجی جادو سر چڑھ کر بولا۔ اس کی وجہ سے حکومت کو اپنا ہی بلایا ہوا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے