نیوز چینلز نے ٹی وی کو ایڈیٹ باکس بنا دیا

نیوز360 کی خصوصی رپورٹ میں گزشتہ ہفتے مختلف نیوز چینلز پر نشر کیے جانے والے پروگرامز کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹیلی ویژن ایجاد ہوا اور گھروں میں بس گیا۔ ٹی وی لوگوں کی زندگیوں میں واضح تبدیلی لے آیا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس پر دکھائے جانے والے مواد کے معیار پر سوالات کیے جانے لگے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے غیر معیاری اور وقت ضائع کرنے والے مواد  کے باعث اس کے لیے ‘ایڈیٹ باکس’ کی اصطلاع عام ہونے لگی۔

ایک زمانہ تھا جب لوگ تفریح کے لیے مرغے لڑاتے تھے۔ 2 مرغوں کو آپس میں لڑتا دیکھ کر لوگ بھی محضوظ ہوا کرتے تھے۔ حالیہ دور میں اگر پاکستانی نیوز چینلز کے ٹاک شوز کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان پروگرامز میں لوگوں کو تجزیے کے نام پر سستی تفریح فراہم کرنے کے لیے سیاستدانوں کی صورت میں مرغے لڑائے جاتے ہیں۔ میزبان ٹی وی پر تو بظاہر پریشان ہونے کی اداکاری کرتا یا کرتی ہے لیکن درصل وہ ہدف یعنی ریٹنگ حاصل ہوجانے پراندر ہی اندر مسرور ہو تا ہے۔ ٹیلی ویژن کے اسی معیار کے باعث اس کے لیے ‘ایڈیٹ باکس’ کی اصطلاع کا استعمال کیا جاتا تھا جو موجودہ حالات میں بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔

نیوز 360 کی اس خصوصی رپورٹ میں گزشتہ ہفتے مختلف نیوز چینلز پر نشر کیے جانے والے چند پروگرامز کا جائزہ لیں گے۔

اٹھائیس دسمبر کو معروف اینکر پرسن ندیم ملک کے ٹاک شو میں وزیراعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈاراورمسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عطا اللہ تارڑ کو بلایا گیا۔ بات پی ڈی ایم کے استعفوں سے شروع ہوئی اور ڈگریوں کے معاملے پر دونوں رہنما آمنے سامنے آگئے۔ عثمان ڈار نے عطا تارڑ کی ڈگری چیلنج کردی۔ اس سیاسی گرما گرمی پر اینکر پرسن کا رویہ حیران کن تھا۔ ندیم ملک صاحب بحث و تکرار کو ختم کرنے کے بجائے اس سے محضوظ ہوتے دکھائی دیئے۔

یہ بھی پڑھیے

صوبہ خیبرپختونخواہ کی پہلی خاتون ڈی پی او

اسی روز رات 8 سے 9 کے دوران پروگرام کیپٹل ٹاک نشر ہوا۔ یہاں بھی حالات مختلف نہ تھے۔ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے ذاتیات پر اتر آئے تو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز بھی آپے سے باہر ہوگئے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان جو انداز گفتگو اپنایا گیا وہ قابل افسوس تھا۔

اٹھائیس دسمبر کو ہی شام 7 سے 8 پروگرام رپورٹ کارڈ نشر کیا گیا۔ یہاں بھی وہی کہانی حالات مختلف نہ تھے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کارحسن نثار اورریما عمر کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ حسن نثار نے کہا کہ پاکستان میں سیاست ایک دھندہ ہے۔ اس کے برعکس ریما عمر نے سوال کیا کہ کس ملک کی سیاست میں پیسہ نہیں چلتا؟ ریما عمر کے موقف کے دوران حسن نثار نے 3 مرتبہ بات کاٹی جو کہ گفتگو کے آداب کی خلاف ورزی ہے۔ حسن صاحب کی خاتون تجزیہ کارپر تنقید کے دوران اینکر نے بیچ بچاؤ کے بجائے خاموشی اختیار کی۔

معروف اینکر کاشف عباسی کے پروگرام میں لیگی رہنما محمد زبیر اور شبلی فراز لڑ پڑے۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کو چور قرار دے دیا لیکن اینکر پرسن کے کان پر جوں تک نہ رینگی بلکہ وہ ہنستے رہے۔

ان تمام تر ٹاک شوز کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا کہ حالیہ دور میں ایڈیٹ باکس (ٹی وی) پر دکھایا جانے والا مواد واقعی ایڈیٹ کہلانے کے لائق ہے۔ اور جو لوگ یہ مواد بنا رہے ہیں یا اُس میں مدد گار ہیں یا پھر جن کے چینل پر یہ مواد چلایا جا رہا ہے وہ کیا کہلائیں گے یا آچنہیں کیا کہا جائے؟ یہ وہ خود کریں تو اچھا ہے۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے