نیب کے احتساب پر قومی اسمبلی میں بحث

قومی احتساب بیورو اپنے قیام سے ہی متنازع رہا ہے۔ اب ادارے کو ایوان بالا اور ایوان زیریں میں بھی تنقید کا سامنا ہے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) اپنے قیام سے ہی متنازع رہا ہے اور اُس پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں الزام لگاتی رہیں کہ ادارے کو ان سے انتقام لینے اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ مگر جب حزب مخالف کی جماعتیں یا تو خود اقتدار میں آئیں یا پھر حکومت کی اتحادی بنیں تو جن قوانین کے غلط استعمال کا الزام لگاتی تھیں ان کی اصلاح کی کوشش نہیں کی۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) یا تو خود اقتدار میں آئیں یا پھر حکومتی جماعت کی اتحادی بنیں تو مخالف جماعتیں ان پر وہی الزامات لگانے لگیں جو آج وہ حکومتی جماعت پر لگا رہی ہیں۔

سینیٹرسلیم مانڈوی والا گزشتہ کئی دنوں سے نیب پر تنقید کررہے ہیں۔ پیر کے روز بھی سینیٹ کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ نیب کو لگام دینے کی ضرورت ہے، یہ کسی کے قابو میں نہیں ہے۔ نیب کی حراست میں لوگ مرگئے اور یہ ادارہ لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کررہا ہے۔ 

پیرکے روزسینیٹ کے اجلاس میں نئی بحث چھڑ گئی جب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ وہ سینیٹ کے پلیٹ فارم سے قومی احتساب بیورو کا احتساب کریں گے اور نیب کے خلاف آزاد تحقیقات کو یقینی بنائیں گے۔

نیب کے موجودہ سربراہ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا انتخاب

نیب کے موجودہ سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو 8 اکتوبر 2017 کو چار برس کے لیے ادارے کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت کی حکومت یعنی مسلم لیگ (ن) اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے نام پر اتفاق کیا تھا۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ رہنے کے علاوہ لاپتہ افراد کے کمیشن کی سربراہ بھی کر چکے ہیں۔

جبکہ ان پر طیبہ فاروق نامی ایک خاتون ہراسانی کا الزام بھی لگا چکی ہیں اوراس حوالے سے چیئرمین نیب کی متنازع ویڈیو بھی سامنے آئی جس کا تاحال فرانزک ٹیسٹ نہیں ہوسکا۔

نیب کی بازگشت عدالت سے پارلیمان تک

نیب کی کارکردگی پراعلیٰ عدلیہ میں بھی سخت تنقید ہوئی اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمرعطا بندیال نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ نیب اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے۔

ایک اور مقدمے میں جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا آغازنیب کے دفتر سے ہوتا ہے، قانونی پہلوؤں کا تفتیشی افسروں کو پتہ ہی نہیں۔ ایک اور مقدمے میں جسٹس گلزار نے کہا کہ مقدمے 20 سال سے زیرالتواء ہیں، کیوں نہ نیب اور احتساب عدالتیں بند کردیں؟

قومی احتساب بیورو 2020 کے دوران نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی سمیت مختلف افراد کے خلاف 90 نئے کیس دائر کرچکا ہے۔ اس دوان نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کیا اور آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

نیب، قومی احتساب بیورو

قومی احتساب بیورو نے 256 انکوائریزاور 90 انویسٹی گیشنز کی منظوری دی۔ گزشتہ برس 81 انکوائریوں کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا۔ جبکہ 167 انکوائریزعدم شواہد کی بنیاد پر بند کردی گئیں۔ 47 ملزمان بری بھی ہوئے جن میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی شامل ہیں۔ نیب نے سابق گورنر گلگت بلتستان کے بیٹے پرنس سلیم سے پلی بارگین کی۔

بلاول بھٹو زرداری، مراد علی شاہ، اکرم درانی، رانا ثناءاللہ اور خواجہ آصف کو نیب آفس طلب کیا گیا اور سوالنامہ بھیجا گیا۔ جبکہ 8 ارب کی مشکوک ٹرانزیکشن کیس میں سابق صدر آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

عمران خان کی نیب پر تنقید

وزیراعظم عمران خان بھی ماضی میں نیب پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ حدیبیہ ریفرنس سے متعلق درخواست مسترد ہونے پر عمران خان نے کہا تھا کہ’نیب میں شریف خاندان نے اپنے لوگ لگا رکھے ہیں’۔

نیب اور پاکستان تحریک انصاف

تحریک انصاف نے منشور میں کہا تھا کہ قومی احتساب بیورو کو خودمختار بنا کر بدعنوانی کے تمام مقدمات کا پیچھا کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنما کے خلاف بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات لگ چکے ہیں اور کئی رہنماؤں کے خلاف تحقیقات اور مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سال 2020: خیبرپختونخوا اسمبلی سے وزراء کی غیرحاضری

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے خلاف نیب تحقیقات کر رہا ہے۔ علیم عادل شیخ اور وفاقی وزراء نورالحق قادری اور غلام سرور کے علاوہ ظفر مرزا، عامر محمود کیانی اور دیگر رہنما بھی ان میں شامل ہیں۔ تاہم ان معاملات پر کوئی خاص پیشرفت سامنے نہیں آئی۔

بی آر ٹی پشاور اور چینی اسکینڈل کے حوالے سے بھی نیب کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس بھی نیب بند کر چکی ہے۔

ایوان بالا میں نیب کارکردگی پر سخت تنقید

پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف) اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نیب کی کارکردگی اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر مسلسل تنقید کا سلسلہ جاری تھا۔ جہاں ایوان بالا اور ایوان زیریں میں تنقید ہورہی تھی وہیں ایک اور تنازعہ سامنے آگیا۔

نیب نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کو طلب کیا۔ اس حوالے سے سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جس پر انہوں نے چیئرمین نیب کو سینیٹ میں طلب کرنے کا عندیہ بھی دیا اور کہا کہ احتساب بیورو کا بھی احتساب کیا جائے گا۔

لیگی رہنما خواجہ آصف کی گرفتاری پر صورتحال مزید گمبھیر ہوگئی۔ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر سینیٹ کا اجلاس بلایا گیا جس میں اپوزیشن نے نیب کارروایوں کا معاملہ سینیٹ میں اٹھایا۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ظفرالحق نے نیب کے خلاف تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی کارروائیاں ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہیں۔ یہ درست نہیں کہ جرم ثابت ہونے سے قبل بدنام کر کے جیلوں میں ڈال کر تضحیک کی جائے۔

پی کے میپ کے سینیٹر عثمان کاکڑ کہ کہا کہ نیب گوانتانامو بے بن گیا ہے۔ احتساب کی بات صرف سیاستدانوں کے ليے کیوں اور کچھ ادارے مقدس گائے کیوں ہیں ؟

وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ آج جو جماعتیں اپوزیشن میں ہیں وہ نیب، پارلیمان، ایس ای سی پی او رایف بی آر کو اپنی کرپشن کے دفاع اور دوسروں کے خلاف استعمال کرتی رہیں۔ جمہوریت شفافیت اور احتساب کا نام ہے۔ چیئرمین نیب کہہ چکے ہیں کہ نیب کی اولین ترجیح بدعنوانی کا خاتمہ ہے۔

چیئرمین نیب کی طلبی

نیب کی کارکردگی پر بریفنگ کیلئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے چیئرمین نیب کو نو جنوری کو طلب کرلیا ہے۔ ان سے زیر التواء نیب مقدمات کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔

 نیب کی کامیابی اور ناکامی

لندن ہائیکورٹ سے مقدمہ میں شکست کے بعد نیب نے پیر کو برطانوی فرم براڈ شیٹ کو 28.7 ملین پاؤنڈز ادا کردیئے۔ برطانوی ہائیکورٹ نے براڈ شیٹ کی طرف سے حکومت پاکستان اور قومی احتساب بیورو کے خلاف مقدمے میں شریف خاندان کی ملکیت ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے 4 فلیٹس کی قرقی کے خلاف احکامات جاری کردیئے۔

درخواست میں براڈ شیٹ نے 4 اپارٹمنٹس کی قرقی کی استدعا کی تھی جبکہ شریف فیملی کے وکلاء نے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان توانائی کے گردشی قرضے پر افسردہ کیوں؟

اتوار کو نیب نے 2018 سے 31 دسمبر 2020 تک تین سالہ رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ کے مطابق تین سالوں میں 714 ارب روپے برآمد کیے گئے اور نیب راولپنڈی کی کارکردگی سب سے بہتر رہی۔

جس کے بعد پیر کے روز وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ بدعنوان 2008ء سے 2018ء تک 10 سال میں نیب نے صرف 104 ارب روپے برآمد کی تھی۔

عمران خان نے مزید کہا کہ احتساب کے واضح اشارے ہیں کہ بغیر کسی سیاسی مداخلت کے آزادانہ کام کریں تو قوم کو کیسے فائدہ ہوتا ہے۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے