کرونا کے باعث خلع کی شرح میں اضافہ

سال 2020 میں پاکستان میں خلع کے کیسز میں 700 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ۔

کرونا وائرس نے پاکستان میں نہ صرف ہزاروں افراد کی جانیں لیں اور معاشی صورتحال کو متاثر کیا بلکہ بسے بسائے گھروں کو بھی تباہ کردیا۔ خلع کی شرح میں 700 فیصد سے زائد اضافہ دیکھا گیا۔

ملک میں لاک ڈاؤن اور آئسولیشن کے دوران لوگوں کے ذہنی دباؤ، اضطراب اور افسردگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا جس کا نتیجہ تشدد کے بے شمار واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔ ان واقعات نے ازدواجی زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن میں تقریباً 90 فیصد پاکستانی خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا میں ہر 3 میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہے۔ لیکن وباء کے دوران ان اعداد و شمار میں تبدیلی آئی۔

ملک میں لاک ڈاؤن کے دوران خلع کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا۔ خواتین نے گزشتہ برس علیحدگی اختیار کرنے کے لیے شوہر کی جانب سے طلاق کا انتظار کرنے کے بجائے خلع لینے کو ترجیح دی۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں خلع کے کیسز میں 700 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ سال 2019 میں 632 خواتین نے خلع کی درخواستیں دیں۔ جبکہ سال 2020 میں یہ تعداد 5 ہزار 198 تک جاپہنچی۔

یہ بھی پڑھیے

طوبیٰ نے عامر لیاقت کی بشریٰ سے طلاق کرادی

خلع کے اعداد و شمار میں اس قدر اضافے کی ایک بڑی وجہ لاک ڈاؤن میں ہونے والی بےروزگاری کو بھی قرار دیا جارہا ہے۔ نوجوانوں کو نوکریوں سے برطرف کیے جانے پر کئی خاندانوں کے چولہے بجھ گئے۔

گزرے وقتوں میں یہ کہا جاتا تھا کہ بیٹی جس گھر میں بیاہی جائے وہاں سے اس کا جنازہ ہی نکلے لیکن اب اس قول کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ حالیہ دور میں خواتین کا خودمختار ہونا بھی ہے۔

حالیہ دور میں تعلیم و شعور کی وجہ سے خواتین کی سوچ میں نمایاں تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ پڑھی لکھی خواتین ڈر و خوف کے بجائے اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا جانتی ہیں۔ پاکستان میں اب خواتین سکون بھری تنہا زندگی کو جھگڑوں والی ازدواجی زندگی پر فوقیت دیتی ہیں۔

اسلام اور ریاست پاکستان نے خواتین کو بہتر زندگی کے انتخاب کرنے کا حق دیا ہے تاہم خواتین کو اب بھی کسی انتہائی فیصلے کے بعد معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سینئر صحافی انصار عباسی نے خلع کی شرح میں اضافے کی وجہ تربیت و کردار سازی کے فقدان، فحش میڈیا اور حقوق نسواں کی مختلف تحریکوں کو قرار دیا۔ انصار عباسی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس حوالے سے لکھے جانے والے آرٹیکل کا لنک شیئر کیا۔

سینئر صحافی نے اپنے آرٹیکل میں خاتون وکیل کا حوالے دے کر لکھا کہ زیادہ تر خلع کے مقدمات دائر کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ شوہر بیویوں کے متعلق اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ فلموں اور ڈراموں میں دکھائی جانے والی زندگی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن انہیں دیکھ کر حقیقی زندگی کو تسلیم کرنا خواتین کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے