براڈشیٹ پر حکومتی تحقیقاتی کمیٹی کا قیام دانشمندانہ فیصلہ؟

وزیراعظم عمران خان نے 3 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے جس میں شبلی فراز، شیریں مزاری اور فواد چوہدری شامل ہوں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے براڈشیٹ کے معاملے پر 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے جس کے ارکان ایسی وزرا ہیں جو آزادانہ طور پر حکومت حامی اور مخالف آراء کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایسے وزراء پر مشتمل کمیٹی کے قیام کو وزیر اعظم کا دانشمندانہ فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

پیر کے روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے بتایا کہ کمیٹی میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری شامل ہوں گی جبکہ شبلی فراز خود کمیٹی کے کنوینئر ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ‘کمیٹی کابینہ کو 48 گھنٹوں میں براڈشیٹ کے معاملے پر سفارشات پیش کرے گی۔ اس معاملے میں فائدہ دینے اور فائدہ اٹھانے والے تمام لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی’۔

وزیراعظم عمران خان نے کمیٹی کے لیے جن ارکان کا انتخاب کیا ہے وہ حکومت کی حمایت یا حزبِ اختلاف کی مخالفت میں کھل کر بولتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جانبدارانہ نہیں بلکہ آزادانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 7 فروری 2020 کو جب قومی اسمبلی نے بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے مجرمان کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور کی تو حکومتی وزراء اس اقدام کی تعریف کر رہے تھے۔ جبکہ فواد چوہدری اور شیریں مزاری نے اس کی کُھل کر مخالفت کی تھی۔

ادھرحکومتی ترجمانوں کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ براڈ شیٹ کمپنی 20 سال پہلے کے اثاثوں کی تحقیقات کررہی تھی۔ گزشتہ 10 سال کا حساب ہونا تو ابھی باقی ہے۔ ملکی دولت لوٹ کر لے جانے والے احتساب سے نہیں بچ سکتے۔

یہ بھی پڑھیے

براڈشیٹ نیا پانامہ یا میمو گیٹ ثابت ہوسکتا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کیس کے فیصلے میں موجود حقائق منظرعام پر لائے جائیں اور یہ معاملہ تفصیلی طورپرعوام کے سامنے رکھا جائے۔

جس کے بعد ٹوئٹر پر جاری پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ ‘براڈشیٹ کیس کے حقائق نیا تہلکہ ہیں۔ شریف خاندان کی 76 جائیدادوں کی قیمت 80 کروڑ ڈالرز بتائی گئی ہے اور یہ بات لندن کی عدالت کہہ رہی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ نواز شریف کی جائیدادوں کو چھوڑیں آگے چلیں۔ بھائی ان کو چھوڑ دیں تو کیسے آگے جاسکتے ہیں’۔

لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ اسکینڈل خود عمران خان کے لیے بھی پانامہ یا میموگیٹ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ برطانیہ میں مقیم براڈشیٹ کمپنی کے مالک کاوے موسوی انکشاف کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومتیں پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں پرغلبہ حاصل کرنے کے لیے کس طرح احتساب کا استعمال کرتی ہیں۔

ادارے کے مالک کے انکشافات صرف سابق وزیر اعظم نواز شریف کو داغدار نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے بھی اسکینڈلز کا نیا پنڈورا بکس کھول سکتے ہیں۔ کاوے موسوی نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے پاس پاکستانی اشرافیہ کے ذریعے کرپشن کا ثبوت ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم اور وفاقی وزراء کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت براڈشیٹ کے معاملے کو انجام تک پہنچا کر ہی دم لے گی لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ معاملے میں کتنی شفافیت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

متعلقہ تحاریر