قومی اسمبلی: خرچہ کروڑوں کا، دورانیہ 11 منٹ

چند گھنٹوں کے نوٹس پر اجلاس بلانے کی وجہ سے ارکان کو اسلام آباد پہنچنے میں مشکلات پیش آئیں۔

حکومت نے عجلت میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی روایت برقرار رکھی ہے اور ایوان کے قواعد کے برعکس (جس میں ہنگامی صورتحال میں 72 گھنٹے میں اجلاس بلانے کا قاعدہ درج ہے) رات گئے ارکان قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ صبح اجلاس ہے۔ اس طرح اجلاس سے محض چند گھنٹوں قبل اجلاس ہی اطلاع دی گئی جس پر اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی اجلاس میں احتجاج کیا گیا۔

قومی اسمبلی کا آخری اجلاس گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے کے بعد حکومت نے 22 جنوری بروز جمعہ کو تین ماہ کے طویل التواء کے بعد اجلاس بلایا۔ اجلاس مختصر نوٹس پر بلائے جانے پراپوزیشن نے ایوان میں شدید تنقید کی۔ مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال نے کہا کہ حکومت نے قومی اسمبلی کو مذاق بنا دیا ہے۔ ارکان کو رات گئے پتہ چلا کہ اجلاس جمعہ کو صبح 10 بجے ہے۔

پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے احسن اقبال کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مختصر نوٹس پر اجلاس بلانے کے سبب ارکان کو اسلام آباد پہنچنے میں مشکلات پیش آئیں۔

3 ماہ بعد بلایا گیا اجلاس شروع ہونے کے چند ہی منٹ بعد ہی رکن قومی اسمبلی پیرنورمحمد شاہ جیلانی کی وفات کے باعث ملتوی کردیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس یکم جنوری کو بھی حکومت کی جانب سے عجلت میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا جس پر حزبِ اختلاف نے ہنگامی طور پر اجلاس بلانے پر شدید احتجاج کیا تھا۔ گزشتہ 3 ماہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہونے کے سبب متعدد صدارتی آرڈیننس جاری کیے گئے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ایسے وقت میں بلائے گئے ہیں جب حزبِ اختلاف اور حکومت کے درمیان تناؤ پایا جارہا ہے۔ حزبِ اختلاف نے حکومت سے پارلیمنٹ میں تعاون نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

قومی اسمبل

سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار ایم بی سومرو نے نیوز360 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘پارلیمانی قواعد کے مطابق پارلیمانی سال کے دوران کم ازکم 130 دن اجلاس بلایا جانا لازم ہے۔ اگست میں شروع ہونے والے رواں پارلیمانی سال کے 5 ماہ کے دوران اب تک صرف 23 دن قومی اسمبلی کا اجلاس ہوسکا جبکہ بقیہ 7 ماہ میں 107 دن مزید اجلاس بلانا ضروری ہے۔’

ایم بی سومرو نے کہا کہ ‘قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے تو قواعد کے مطابق یہ سیکرٹری قومی اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ، وقت اور مقام کے حوالے سے گزٹ اعلان شائع کرائی گا اور ہر ممبر کو تفصیلات یا کوائف پر مشتمل اطلاع نامہ بھی جاری کرے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ جب اجلاس مختصر نوٹس یا ہنگامی صورت میں 72 گھنٹوں کے اندر طلب کیا گیا ہو تو ہر ایک رکن کو علیحدہ علیحدہ اطلاع نامہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس کا وقت تاریخ اور مقام گزٹ میں شائع کیا جائے گا۔ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے اعلان کیا جائے گا اور اراکین کو معمول کے نوٹس کی بجائے ٹیلی فون اور ٹیلی گرام کے ذریعے اطلاع بھی دی جائے گی۔ یہ معاملہ ہنگامی صورتحال کے لیے ہے مگر رواں اجلاس کے ایجنڈے میں ایسی کوئی چیز شامل نہیں۔’

انہوں نے کہا کہ ‘ہنگامی اجلاس بھی 72 گھنٹے کے اندر بلایا جا سکتا ہے مگر ارکان پارلیمنٹ کو رواں اجلاس کی اطلاع رات گئے دی گئی اور اجلاس صبح ساڑھے 10 بجے بلایا گیا تھا۔ اس طرح 72 گھنٹے کی شرط پوری نہیں ہوتی’۔

یہ بھی پڑھیے

قومی اسمبلی کا اجلاس رواں ماہ بلانا حکومت کا امتحان

ایم بی سومرو نے کہا کہ ‘بلوچستان، سندھ اور دیگر صوبوں کے دور دراز علاقوں سے ارکان پارلیمنٹ کا عجلت میں اسلام آباد پہنچنا ممکن نہیں۔ کئی علاقوں میں موبائل فون کے سگنل نہیں آتے تو کہیں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ اسلام آباد میں رہنے والوں کو شاید اندازہ نہ ہو کہ ملک کے بہت سے علاقوں میں آج بھی 12 سے 18 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے موبائل فونز بند ہو جاتے ہیں اور ہر وقت ٹیلی ویژن کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔ سندھ کے علاقے عمرکوٹ اور بلوچستان کے  ضلع چاغی اور دیگر دور دراز علاقوں سے  بھی ارکان پارلیمنٹ  کو 72 گھنٹے پہلے اطلاع ملنے پر بھی اسلام آباد پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا عجلت میں قواعد کو نظرانداز کرتے ہوئے اجلاس بلانا درست اقدام نہیں۔ ایسے اقدامات دور دراز کے حلقوں کے ارکان  پارلیمنٹ کو اپنے عوام کی آواز اٹھانے سے محروم رکھنے کے مترادف ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب بھی قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا ہے تو اس کے چائے پانی، ٹرانسپورٹ اور پروٹوکول جیسی دیگر سہولیات پر فی اجلاس کروڑوں روپے اخراجات آجاتے ہیں۔ ایسے میں اگر اجلاس بلا ہی لیا گیا تھا اور حزبِ اختلاف کے رہنما بھی اجلاس میں آہی گئے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بلائے گئے اجلاس پر احتجاج کرنے کے بجائے اسے نتیجہ خیز بنائیں۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر اجلاس جمعے کے روز بلایا جائے تو سنیچر اور اتوار کو ہفتہ وار تعطیل کے باعث اجلاس نہیں ہوتا لیکن اراکین کے الاؤنسز دونوں دنوں کے ملتے ہیں۔ لہذا 11 منٹ اجلاس چلنے کے بعد ملتوی ہوگیا لیکن ارکان کے تمام الاؤنسز پوری رفتار کے ساتھ جاری ہیں۔

متعلقہ تحاریر