پاکستان میں مردوں کے ساتھ ہراسگی اور ہمارا رویہ

کسی خاتون کو تذلیل کا حق حاصل نہیں ہے اس اقدام کو ہراسگی میں شمار کیا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں خواتین کے حقوق کی پامالی اور انہیں ہراساں کرنا ایک عام بات ہے۔ بعض اوقات پاکستان میں خواتین کی جانب سے بھی مردوں کو ہراساں کیا جاتا ہے مگر ایسے کسی واقعے کو ہراسگی میں کبھی شمار نہیں کیا جاتا۔

خواتین کے حقوق کیا ہیں ہم شاید اب تک جانتے ہی نہیں ہیں۔ آج سے 70 سال پہلے اقوام متحدہ نے صنف نازک کے حقوق کی تعریف بیان کرتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق واضح کیے تھے۔ جن کے مطابق ہر خاتون کو تشدد، غلامی اور بنا کسی امتیازی سلوک کے زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اور تو اور خواتین کو تعلیم ، جائیداد، ووٹ اور منصفانہ و مساوی اجرت کا بھی پورا حق حاصل ہے۔

یہ تمام وہ حقوق ہیں جو دنیا بھر میں خواتین کو حاصل ہیں لیکن پاکستان میں ایسی کئی عورتیں ہیں جنہیں آج بھی اپنے مرضی سے زندگی گزارنے کی آزادی نہیں ہے۔

اس کے برعکس جب ہم حقوق نسواں کی بات کرتے ہیں تو کبھی کبھی معاملات حد سے آگے نکل جاتے ہیں۔ جیسا کہ کسی خاتون کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ کسی کے ساتھ بدتمیزی کرئے، ہاتھ اٹھائے یا کسی کی تذلیل کرئے۔ اس قسم کا کوئی بھی عمل دنیا کے کسی کونے میں قابل قبول تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ انہیں ہراسگی میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اگر خواتین مردوں پر ہاتھ اٹھائیں یا سرعام ان کی تذلیل کریں تو ہراسگی کا الزام تو درکنار بعض اوقات خواتین کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جھوٹی طرف داریاں بھی سامنے آتی ہیں۔ یا اگر ایسا نہیں ہوتا تو زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پر خاتون کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بات وہیں ختم ہوجاتی ہے۔

خواتین کے مردوں کو ہراساں کرنے کے واقعات

گزشتہ برس مئی میں پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا گیا کہ سڑک پر ناکہ لگا ہونے کے باعث ان کی گاڑی آگے نہ جاسکی ۔ خاتون نے گاڑی سے اتر کر خود کو کرنل کی بیوی ظاہر کرتے ہوئے سڑک پر ایک ہنگامہ برپا کردیا ۔ نہ صرف پولیس اہلکار سے بدتمیزی کی بلکہ اسے دھمکیاں بھی دیں۔ اس قسم کا واقعہ اگر کسی یورپی ملک میں پیش آتا تو یقیناً خاتون کو اسی وقت جیل کی سیر کرادی جاتی۔

اسی طرح نومبر میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں ایک شاپنگ مال کے باہر خاتون نے سیکیورٹی گارڈ کو تھپڑ مار دیا تھا۔ گارڈ کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی اور شاپنگ مال کا وقت ختم ہونے پر خاتون کی گاڑی کو روکا تھا۔ ویڈیو نے سوشل میڈیا پر خوب تہلکہ مچایا لیکن بات تنقید سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ خاتون کا چہرہ واضح طور پر ویڈیو میں دیکھا گیا لیکن شاید اس معاملے میں بھی ‘خواتین کے حقوق’ آڑے آگئے۔

تازہ واقعہ اسلام آباد کے کنولی ریسٹورنٹ میں پیش آیا۔ پچھلے دنوں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں کیفے کی مالکن ملازم کے انگریزی ٹھیک طریقے سے نہ بول پانے پر ان کا مذاق اڑاتی دکھائی دیں۔ سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر خاتون کو برا بھلا کہا گیا مگر کسی نے ان پر ملازم کو ہراساں کرنے کی بات نہیں کی۔

 اگر اس واقعہ کو ہم دوسرے رخ سے دیکھیں جس میں ملازم کوئی خاتون ہو اور اس کا مذاق بنانے والا ہوٹل کا مالک ہو، تو کیا اس صورت میں ہم ملک ہر ہراسگی کا الزام عائد نہیں کرتے؟ مگر اس واقعے پر پاکستان کی حقوق نسواں کی تنظیموں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

منیجر کی انگریزی کا مذاق اڑانے پر ریسٹورنٹ مالکن مشکل میں پھنس گئیں

پاکستان میں اکثر خواتین کے حقوق کی آڑ میں ایسے معاملات دبا دیئے جاتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات میں مردوں کے حقوق کی بات کہیں نہیں کی جاتی۔ اسی لیے شاید مرد حضرات بھی اس زاویے سے سوچنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔

پاکستان کی خواتین اکثر و بیشتر یہ گلہ کرتی ہیں کہ انہیں مساوی حقوق نہیں دیئے جاتے اور ایسا ہے بھی مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا اگر کنولی معاملے میں ان دونوں خواتین کو مساوی حقوق کے پیمانے پر جانچا جاتا تو ان پر ہراسگی کا مقدمہ نہیں بنتا تھا؟

خواتین مساوی حقوق کی بات کرتی ہیں لیکن کیا پاکستان میں اگر اس طرح کے معاملات میں واقعی برابری کا رویہ اپنایا جائے تو خواتین اسے قبول کریں گی؟

ہونا تو یہی چاہیے کہ خواتین اور مردوں کے حقوق کی الگ الگ پیمائش کے بجائے انسانی حقوق کی بات کی جائے ۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے ملک کی خواتین کو کچھ معاملات میں ‘امتیازی سلوک’ کی عادت ہوچکی ہے۔ اور اب ان کا برابری کے اصولوں پر چلتے ہوئے انسانی حقوق کی پیروی کرنا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

متعلقہ تحاریر