پی ڈی ایم میں سب سے زیادہ نقصان مولانا فضل الرحمٰن کا ہوا ہے

مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت ٹوٹی، اُس کے نام کو الیکشن کمیشن میں چیلینج کیا گیا اور ان کے خاندان پر نیب کے کیسز کھل گئے ہیں۔

حزبِ مخالف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا اتحاد بنانے کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ایک طرف ان کی سیاسی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اُس کے نام کو الیکشن کمیشن میں چیلینج کر دیا گیا ہے تو دوسری جانب ان کے اور خاندان کے خلاف نیب کے کیسز کھل گئے ہیں۔

ویسے تو جمعیت علماء اسلام (ف) اور مولانا فضل الرحمٰن پاکستان کی سیاست کےلیے کوئی نیا نام نہیں لیکن سال 2002 میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے قیام کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمٰن اس کے سربراہ کی حیثیت سے سیاسی میدان میں نمایاں اہمیت اختیار کرگئے۔

وقت گزرتا رہا اور سال 2008 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی فتح یاب ہوئی تو اس وقت مجلس عمل کا اتحاد ٹوٹ چکا تھا لیکن سربراہ جمیعت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے سابق صدر آصف علی زرداری سے تعلقات بڑھائے اور مرکز میں اپنی سیاسی جماعت کو وزارتیں دلوادیں ۔ مولانا نے اپنے لیے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ لیا۔

سال 2012 میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ۔ 2013 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی مولانا نے اپنا سیاسی قبلہ مسلم لیگ ن کی جانب کرلیا۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کے علاوہ نواز شریف سے اپنی پارٹی کے لیے بھی چند وزراتیں حاصل کرلیں۔ یوں مولانا اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی جماعت کی ضرورت بنتے چلے گئے۔

پی ڈی ایم

پھر 2018 کا انتخابی موسم آیا تو پاکستان تحریک انصاف اپنی جڑیں مضبوط کرچکی تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی اور مولانا کے درمیان بات نہ بنی۔ دونوں نے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کی اور مولانا کھل کر عمران خان کیخلاف سامنے آئے۔ہر دور میں حکومت کا حصہ رہنے والی جمعیت اور مولونا کیلئے یہ دور بڑا سخت ثابت ہوا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہاں سے مولانا کا برا وقت شروع ہوا تو غلط نہ ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا لیکن ہاتھ پھر بھی ان کے کچھ نہ آیا۔ انھوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور لوگوں کی ایک قابل قدر تعداد وہاں جمع بھی کرلی۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر حزب اختلاف کی اہم جماعتوں نے عین موقع پر پیٹھ دکھائی اور مولانا کو اسلام آباد سے خالی ہاتھ اٹھنا پڑا۔ یہ تحریک انصاف کی ایک اور کامیابی تھی۔ کچھ عرصے بعد حزب اختلاف کی تحریک میں پھر جان پڑی اور مولانا کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کی صورت میں امید کی کرن نظر آئی۔ اس اتحاد کی دو بڑی جماعتوں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمٰن کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے انہیں پی ڈی ایم کا سربراہ بنادیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا مولانا محمد خان شیرانی فضل الرحمن کے لیے خطرہ ہیں؟

مولانا فضل الرحمٰن کے پی ڈی ایم سے نقصانات

کہا یہ جارہا ہے کہ شروع میں سیاسی سرگرمی دکھا کر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے دونوں بڑی جماعتوں نے کچھ نہ کچھ فائدہ تو اٹھالیا لیکن پیچھے رہ گئے تو صرف مولانا۔ پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر بنانے میں مدد ملی۔ ن لیگ بھی پریشانیوں کے ریڈار سے نکلتی دکھائی دے رہی ہے یا کم از کم کھل کر میدان عمل میں آنے سے کترا رہی ہے۔ لیکن اقتدار کی غلام گردشوں سے مانوس مولانا فضل الرحمٰن جوکہ پی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہیں اب تک اس پلیٹ فارم سے فائدہ تو دور کی بات صرف نقصان ہی اٹھا رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کی اپنی پارٹی اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ان پر اپنی پارٹی کا نام تبدیل کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد شیرانی کہتے ہیں کہ  2008 اور 2013 میں جمعیت علمائے اسلام کا نام فضل الرحمان گروپ کے اضافے کے ساتھ رجسٹرڈ کیا گیا۔ جب کہ جماعت کا نام جمعیت علمائے اسلام پاکستان تھا۔ جے یو آئی کو اپنے نام سے رجسٹر کرانے پر مولانا فضل الرحمٰن کو نوٹس بھیجنے پر غور کیا جارہا ہے۔ مولانا کے دیگر پرانے ساتھی بھی ان کے خلاف نظر آتے ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی نے مولانا کی جماعت یعنی جمعیت علماء اسلام (ف) کے خلاف الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس دائر کردیا گیا ہے۔ فرخ حبیب کے مطابق حافظ حسین احمد نے فضل الرحمان کے لیبیا اور عراق سے فنڈنگ لینے کا اعتراف کیا۔ اس حوالے سے مولانا پر الیکشن کمیشن میں رسیدیں جمع کرانے پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

پی ڈی ایم

مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے خاندان پر نیب کے کیسز بھی کھل گئے ہیں۔ مولانا آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں گھر چکے ہیں۔ ان کے بھائی ضیاءالرحمٰن اور داماد فیاض علی کو بھی نیب نے مختلف کیسز میں طلب کررکھا ہے۔

ان تمام تر باتوں کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس وقت مولانا فضل الرحمٰن کا ستارہ بری طرح گردش میں ہے۔ اقتدار سے قربت تو دور کی بات ان کے لیے حوالات کی سیر بھی خارج از امکان دکھائی نہیں دیتی۔ پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم انہیں سیاست میں اپنا کھویا ہوا مقام تو واپس نہ دلا سکا الٹا انہیں لینے کے دینے پڑگئے ہیں۔

متعلقہ تحاریر