کشمیر کے معاملے پر حکومت اور حزبِ اختلاف غیرسنجیدہ
یومِ یکجہتی کشمیر پر منعقد کیے جانے والے جلسوں میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے زیادہ مخالفین کو ہدفِ تنقید بنایا۔

پاکستان کی شہ رگ کہے جانے والے کشمیر کے لیے یوم یکجہتی کا دن ملک میں سیاسی دھمکیوں اور الزامات کی نذر ہوگیا۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے ایک دوسرے پر الزامات اور دھمکیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کشمیر کے معاملے پر غیرسنجیدہ ہیں۔
ہر سال 5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن مختلف سیمینارز اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں جن میں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے۔ اس مرتبہ تقاریب تو منعقد ہوئیں لیکن سیاسی دھمکیوں کی نذر ہوگئیں۔ وزیراعظم عمران خان اور حزبِ اختلاف دونوں ہی یومِ یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے منعقد کیے گئے سیمینارز یا تقاریب میں ایک دوسرے پر الزامات لگاتے اور دھمکیاں دیتے نظر آئے۔
کوٹلی آزاد کشمیر میں یومِ یکجہتی کشمیر کے جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیرعظم عمران خان نے کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کے بجائے حزبِ اختلاف کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’اگر حزبِ اختلاف لانگ مارچ کرنا چاہتی ہے تو کرلے ‘حکومت مدد کرے گی لیکن اُلٹا لٹک کر بھی یہ این آر او حاصل نہیں کرسکتی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’بڑے ڈاکوؤں کو کسی صورت این آر او نہیں ملے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ چھوٹے چور جیلوں میں قید ہوں اور بڑے ڈاکو این آر او لے کر فرار ہوجائیں۔‘
ادھر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) نے مظفر آباد میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے جلسہ تو منعقد کیا لیکن سیاسی قائدین کی تقاریر کا موضوع حکومت پر تنقید ہی رہا۔
یہ بھی پڑھیے
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں ایک دھاندلی کی حکومت ہے جس نے گلگت بلتستان میں دھاندلی کرائی ہے، ہم اسے نہیں مانتے۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں جب تک عوام کی حکومت تھی تو انڈیا کو کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ کشمیر کو صوبہ بنالے۔ میں جب تک کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو انڈیا کو جرات نہیں ہوئی۔ میں عمران خان کو سیاستدان کہوں تو برا لگتا ہے۔‘
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردادی نے بھی حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کوجواب دینے کے لیے جمہوری وزیراعظم کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’ہم انسانیت کے دائرے میں رہ کر سیاست کریں گے اور آزاد کشمیر کے انتخابات سے پہلے پاکستان کی حکومت کو گھر بھیج دیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ آپس میں سیاسی اختلاف تو ہوسکتے ہیں لیکن قومی مفاد کے لیے پاکستان کے عوام متحد ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ’حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ عوام کو حقیقی اور جمہوری حکومت سے محروم کیوں رکھا ہے؟ سقوط کشمیر کے ساتھ عمران خان کا نام آتا ہے۔‘
دوسری جانب راولپنڈی میں یوم یکجہتی کشمیر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ’پی ڈی ایم اخلاق سے اسلام آباد آئے تو استقبال کروں گا لیکن اگر قانون توڑا تو وہ سلوک کروں گا جو تاریخ یاد رکھے گی۔‘
صرف یہی نہیں بلکہ حکومتِ خیبر پختونخوا نے یومِ یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے اخبار میں ایک اشتہار شائع کروایا جس میں ایک نئی اصطلاح ‘کشمیریئن’ کا استعمال کیا گیا ہے۔ کشمیریوں کے لیے حکومت اشتہار میں الگ اور ایک نئی اصطلاح استعمال کر کے کس طرف اشارہ کرنا چاہ رہی ہے یہ ایک متنازع سوال بن چکا ہے۔
حزبِ اختلاف کو کھلے عام دھمکی وزیر داخلہ کو زیب نہیں دیتی اور وہ بھی اس ریلی میں جس کا انعقاد کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے کیا گیا ہو۔ وزیر داخلہ کے علاوہ بھی وزیراعظم عمران خان اور پی ڈی ایم نے یومِ یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے منعقد کیے گئے جلسوں میں ایک دوسرے پر الزامات لگائے۔ ان جلسوں سے صاف ظاہر ہے کہ حزبِ اختلاف کو حکومت کی اور حکومت کو حزبِ اختلاف کی زیادہ فکر ہے لیکن کشمیر کے معاملے پر دونوں ہی غیرسنجیدہ ہیں۔