عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کا چیلنج قبول کر لیا

عمران خان کا کہنا ہے کہ ’چوہوں کی طرح حکومت نہیں کر سکتا اس لیے جس کو مجھ پر اعتماد نہیں ہے سامنے آ کر اظہار کرے۔‘

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا سیاسی طور پر بہادرانہ فیصلہ کرتے ہوئے نا صرف خود چیلنج قبول کیا ہے بلکہ حزبِ اختلاف کے لیے بھی مشکل پیدا کردی ہے۔

بدھ کے روز ہونے والے سینیٹ کے انتخاب میں اہم ترین مقابلہ عبدالحفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے 169 جبکہ عبدالحفیظ شیخ نے 164 ووٹ حاصل کیے۔ قومی اسمبلی میں کُل 340 ووٹ کاسٹ کیے گئے جس میں سے 7 مسترد بھی ہوئے تھے۔

سینیٹ کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ’عوام کے نمائندوں نے جعلی مینڈیٹ واپس چھین لیا ہے۔ ووٹ چور عوام کے مجرم کو اپنے ہی لوگوں نے ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ عمران خان کے وزیر اعظم ہاؤس پر قابض رہنے کا اب کوئی جواز نہیں رہا۔‘

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ ’وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست ہارنے پر اسمبلی تحلیل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ عمران خان کو شکست ہوئی ہے اور ہم جیت گئے ہیں۔ اب اُنہیں کون روک رہا ہے؟ کیا عمران خان انتخاب سے خوفزدہ ہیں؟‘

ادھر وزیراعظم عمران خان نے ایک بیان میں کہا کہ ’عبدالحفیظ شیخ پر عدم اعتماد کا مطلب حکومت پر عدم اعتماد ہے۔ میں چوہوں کی طرح حکومت نہیں کر سکتا اس لیے جس کو مجھ پر اعتماد نہیں ہے سامنے آ کر اظہار کرے۔ میں نے اسی ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

جس کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ’عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے کا ڈرامہ نہیں کریں۔ اُن کے پاس استعفے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ کے انتخاب میں حکمراں جماعت کو اپ سیٹ شکست

جیو نیوز کے مطابق قومی اسمبلی سے وزیراعظم عمران خان کے لیے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے تناظر میں اجلاس آج ہوگا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خواتین کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما فوزیہ ارشد 174 کے ساتھ کامیاب ہوئی ہیں لیکن عبدالحفیظ شیخ کو اُن کے مقابلے میں 10 ووٹ کم ملے ہیں۔

سینیٹ انتخاب

وزیراعظم عمران خان نے سیاسی طور پر بہادرانہ فیصلہ کیا ہے جو حکمراں جماعت کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے لیے بھی چیلنج بن گیا ہے۔ چند روز قبل ویڈیوز سامنے آچکی ہیں جن میں اراکین کو ووٹ کی خرید و فروخت کرتے ہوئے یا ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ کار بتاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

اعتماد کے ووٹ کھلی رائے شماری کے تحت ہوتے ہیں اس لیے اب اُن اراکین کے لیے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جو رقم کی خاطر ووٹ فروخت کر چکے ہیں۔

ایوان کے اعتماد کے لیے 172 ووٹ درکار ہوتے ہیں اور وزیراعظم کے اس فیصلے سے یا تو ان کی فتح ہوسکتی ہے یا پھر انُ 10 اراکین کے بارے میں معلوم ہوجائے گا جنہوں نے عبدالحفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا۔ اگر اعتماد کے ووٹ میں بھی ان اراکین نے حکومت کو ووٹ نہیں دیا تو تحریک انصاف میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔

متعلقہ تحاریر