چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بنیں گے یا یوسف رضا گیلانی؟

سینیٹ کے انتخاب میں جنرل نشست پر حزبِ اختلاف کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔

سینیٹ کے انتخاب کے بعد اس سوال نے جنم لے لیا ہے کہ 12 مارچ کو حکومتی امیدوار یعنی موجودہ چیئرمین محمد صادق سنجرانی دوبارہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہوں گے یا پیپلز پارٹی کے ممکنہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی جنہیں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حمایت حاصل ہے؟

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی بنیں گے یا صادق سنجرانی؟ کیا وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیں گے؟ یہی سوالات ہیں جن کی گونج حکومتی اور حزبِ اختلاف کے حلقوں سمیت ملک بھر میں سنی جارہی ہے۔ ہر 3 برس بعد چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ آتا ہے مگر اس بار اسلام آباد میں جنرل نشست پر حزبِ اختلاف کے ممکنہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کی بطور سینیٹر کامیابی نے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے جن کے انتخاب میں حکومتی جماعت کے ووٹ بھی شامل ہیں۔ اس صورتحال میں وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟

عبدالحفیظ شیخ کی شکست نے جہاں حکومت خصوصاً عمران خان کی پوزیشن کو شدید متاثر کیا وہیں یہ صورتحال چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پر بھی اثرانداز ہوگی۔ یہ معاملہ پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے ووٹرز کو تذبذب میں مبتلا کر سکتا ہے۔عمران خان

ARY

عمران خان نہیں چاہتے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھائیں اس لیے انہوں نے سینیٹ کے انتخاب سے قبل اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا عمران خان نے واقعی اپنا ووٹ ضائع کردیا؟

اس کے لیے انہیں سادہ اکثریت درکار ہے اور خفیہ بیلٹ کی جگہ کھلی رائے شماری کے ذریعے اعتماد کا ووٹ دیا جائے گا۔

دوسری مرتبہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ووٹنگ سے ہوگا

سینیٹ کی تاریخ میں دوسری مرتبہ ایسا ہوگا کہ 9ویں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ماضی یعنی 6 اگست 1973 سے اب تک 12 مارچ 2015 تک 7 چیئرمین سینیٹ بلامقابلہ اور اتفاق رائے سے منتخب کیے گئے ہیں تاہم ماضی کی روایت کے برعکس موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے انتخاب کے لیے سینیٹ میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالے گئے اور اب دوبارہ چیئرمین کے انتخاب کے لیے رائے شماری کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔

یوسف رضا گیلانی بمقابلہ صادق سنجرانی

موجودہ چیئرمین اور حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کے مقابلے میں حزبِ اختلاف کے ممکنہ امیدوار اور سیاسی پس منظر کے حامل یوسف رضا گیلانی قد آور شخصیت ہیں جو وفاقی وزیر، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ جبکہ صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بننے سے قبل کبھی بھی کسی صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن نہیں رہے ہیں۔

سینیٹ کے حالیہ انتخاب کے بعد حکومت کے پاس 47 اور اپوزیشن کے پاس 53 ووٹ ہیں تاہم 2018 کے سینیٹ انتخاب میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار کے حلف نہ اٹھانے کے باعث رکنیت معطل ہے۔ اس طرح سینیٹ کے ارکان کی تعداد عملاً 100 کی بجائے 99 ہے۔

چیئرمین کا انتخاب حکومت کے لیے بڑا چیلنج

حکومت کے لیے اپنے امیدوار کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانا بڑا چیلنج ہے۔ اگر معاملہ حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا تو حزبِ اختلاف کا چیئرمین ہونے کے سبب مستقبل میں قانون سازی کے حوالے سے بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے کامیاب امیدوار کو کم از کم 50 ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔

2018 میں صادق سنجرانی کا انتخاب

2018 کے سینیٹ انتخاب میں 103 سینیٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا اور صادق سنجرانی 57 ووٹ لے کر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے۔

صادق سنجرانی
DAWN

جہاں حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں جانب سے جوڑ توڑ کر سلسلہ جاری ہے وہیں دیکھنا ہوگا کہ حزبِ اختلاف نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرانے کے لیے (اگر چہ حزبِ اختلاف کے پاس عددی برتری ہے) جس طرح حکومتی ووٹ توڑے تھے کیا وہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بھی حکومتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی؟ یا حکومت ماضی کی طرح حزبِ اختلاف کے ووٹ توڑ کر اپنا چیئرمین منتخب کروا لے گی؟

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد حکومت پر بھاری

ایوان بالا میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اکثریتی پارٹی بننے کے باوجود اپوزیشن حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد حکومت پر بھاری ہے۔

پنجاب میں 11 نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوگئے تھے جس کے تحت تحریک انصاف نے 5، مسلم لیگ (ن) نے 5 اور (ق) لیگ نے سینیٹ کی ایک نشست حاصل کی تھی۔ جبکہ 3 مارچ  کو 37 نشستوں پر سینیٹرز کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے گئے جس میں تحریک انصاف نے 13 نشستیں حاصل کیں۔ پہلے کی 7 نشستوں سمیت سینیٹ میں 25 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی مجموعی طور پر 21 نشستوں کے ساتھ ایوان کی دوسری اور مسلم لیگ (ن) 17 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا میں تیسری جماعت بن گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عامر لیاقت حسین کے سینیٹ انتخاب پر یوٹرن

بلوچستان عوامی پارٹی کی نشستوں کی تعداد 13، جمیعت علماء اسلام (ف) کی نشستوں کی تعداد ، ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 3، عوامی نیشنل پارٹی کی 2، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی 2 اور مسلم لیگ (ق) کی سینیٹ میں ایک نشست ہے۔

دوسری جانب نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی 2، 2 نشستیں، جی ڈی اے اور جماعت اسلامی کی ایک، ایک نشست ہے۔ جبکہ ایک آزاد امیدوار عبدالقادر بلوچستان سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اس طرح ایوان بالا میں آزاد سینیٹرز کی تعداد 5 ہوگئی ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جماعت اسلامی کے واحد سینیٹر کا غیر جانبدار رہنے کا امکان ہے جبکہ اے این پی کے بلوچستان سے سینیٹر عمر فاروق چئیرمین سینیٹ کے لیے صادق سنجرانی کو ووٹ دے سکتے ہیں کیونکہ بلوچستان میں اے این پی کا اتحاد صادق سنجرانی کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔

ڈپٹی چیئرمین کون بنے گا؟

حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین کے لیے ناموں کا انتخاب بھی ابھی باقی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سینیٹ کے حالیہ انتخاب سے قبل سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت تھی اور راجہ ظفرالحق قائد حزبِ اختلاف تھے تاہم وہ 11 مارچ کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ اپوزیشن کو اب نئے قائد حزبِ اختلاف کا انتخاب کرنا ہے۔

حالیہ سینیٹ کے انتخاب میں شکست کا سامنا کرنے والے عبدالحفیظ شیخ تحریک انصاف کے ممبر نہیں ہیں۔ اس کے سبب پی ٹی آئی میں عبدالحفیظ شیخ کو امیدوار بنائے جانے پر تحفظات بھی پائے جاتے تھے جس کے منفی نتائج بھی سامنے آئے۔ اسی طرح چیئرمین سینیٹ کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے کسی سینیٹر کی بجائے صادق سنجرانی کا انتخاب کیا گیا جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ صورتحال بھی پی ٹی آئی کے بعض سینٹرز کو متنفر کر سکتی ہے۔

اسلام آباد میں سینیئر صحافی عبدالرزاق کھٹی نے نیوز 360 سے گفتگو میں اس بات سے اتفاق کیا کہ ’وزیراعظم عمران خان نے اپنی جماعت کے کسی ممبر کو چیئرمین سینیٹ بنانے کی بجائے اس اہم عہدے کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر کا انتخاب کیا ہے۔ یہ معاملہ بھی پارٹی میں ناپسندیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔‘

سینیٹ انتخاب

انہوں نے کہا کہ ’عبدالحفیظ شیخ کو امیدوار بنانے کا فیصلہ غلط تھا اسی طرح صادق سنجرانی کے انتخاب کا فیصلہ بھی درست نہیں۔ 12 مارچ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوگا جس میں میں یہ پہلو بھی اپ سیٹ کا سبب بن سکتا ہے۔’

صادق سنجرانی کے منفی اور مثبت پہلو

سینئر صحافی عبدالرزاق کھٹی نے کہا کہ ‘صادق سنجرانی کا بطور امیدوار انتخاب پی ٹی آئی میں ناپسندیدگی کا سبب بن سکتا ہے جو ان کا منفی نکتہ ہے۔ جبکہ یوسف رضا گیلانی صادق سنجرانی کے مقابلے میں تگڑے امیدوار ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ ‘صادق سنجرانی کا وزن صرف اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہے۔ جس طرح سینیٹ انتخاب میں اسٹیبلشمنٹ نے خود کو پیچھے رکھا اسی طرح صادق سنجرانی کے معاملے پر بھی وہ پیچھے ہٹ گئے تو صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ صادق سنجرانی بطور چیئرمین سب کو ساتھ لے کر چلے اور ان کے کام کے حوالے سے تمام سینٹرز سے اچھے رابطے رہے۔ ان میں سے 52  سینیٹرز اب بھی ایوان بالا میں موجود ہیں۔

قانون سازی میں حکومتی مشکلات بڑھ جائیں گی

عبدالرزاق کھٹی نے کہا کہ ’مارچ کا مہینہ فیصلہ کن لگ رہا ہے۔ نمبر گیم میں حزب اختلاف کی پوزیشن مضبوط ہے۔ اگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین منتخب نہیں بھی ہوتے تب بھی حکومت سادہ قانون سازی آسانی سے نہیں کرسکے گی۔ حزبِ ‘اختلاف حکومت کے بلوں کی مخالفت کرے گی اور بل مسترد ہو جائیں گے۔

کون کون سی شخصیات چیئرمین سینیٹ بن چکی ہیں؟

اب تک 8 شخصیات چیئرمین سینیٹ منتخب ہوچکی ہیں۔

  1. احبیب اللہ خان۔
  2. غلام اسحاق خان۔
  3. وسیم سجاد۔
  4. محمد میاں سومرو۔
  5.  فاروق حمید نائیک۔
  6. سید نیئر حسین بخاری۔
  7. میاں رضا ربانی۔
  8. محمد صادق سنجرانی۔

یہ بھی پڑھیے

یوسف رضا گیلانی اور فیصل واوڈا پر نااہلی کی تلوار لٹکنے لگی

حبیب اللہ خان، غلام اسحاق خان، میاں محمد سومرو 2،2 مرتبہ، 3 برس کے لیے چیئرمین بنے۔ جبکہ وسیم سجاد سب سے زیادہ مرتبہ یعنی 11 برس چیئرمین سینیٹ رہے اور 4 مرتبہ 3،3 برس کے لیے چیئرمین سینٹ منتخب ہوئے۔ وہ 24 دسمبر 1988 سے 12 اکتوبر 1999 تک چیئرمین رہے۔

فاروق ایچ نائیک، نیئربخاری اور رضا ربانی ایک، ایک مرتبہ 3 برس کے لیے سینیٹ کے چیئرمین بنے۔

بلامقابلہ اور اتفاق رائے سے انتخاب

پہلے چیئرمین سینیٹ حبیب اللہ خان سے ساتویں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی تک تمام شخصیات ووٹوں کی بجائے بلامقابلہ اور  ایوان کے اتفاق رائے سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئیں۔ جبکہ 12 مارچ 2018 کو پہلی بار چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ ماضی میں چیئرمین کا انتخاب متفقہ طور پر کیا جاتا تھا جس کا مقصد اس بڑے عہدے کو غیرجانبدار اور غیر متنازعہ رکھنا تھا۔

چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر

چیئرمین ایوان بالا، صدر مملکت کے بعد دوسرا اہم ترین عہدہ ہے۔ صدر مملکت کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر ہوتا ہے۔ جنرل ضیاءالحق کی حادثے میں موت کے بعد چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان قائم مقام صدر اور پھر باقاعدہ صدر منتخب کر لیے گئے تھے۔

ڈپٹی چیئرمین بلوچستان سے بنائے جانے کی روایت

اب تک 12 شخصیات ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو چکی ہیں جن میں عبدالمالک بلوچ، مخدوم محمد سجاد حسین قریشی، ملک محمد علی خان، سید محمد فضل آغا، نور جہاں پانیزئی، میر عبدالجبار خان، میر ہمایوں خان مری، خلیل الرحمان، میر جان محمد خان جمالی، صابر علی بلوچ، مولانا عبدالغفور حیدری اور اور سلیم مانڈوی والا شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر شخصیات کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

ان تمام میں سے کوئی بھی 3 برس سے زائد ڈپٹی چیئرمین کے منصب پر فائز نہیں رہا۔

کم عمر چیئرمین سینیٹ

صادق سنجرانی بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ بننے والی پہلی اور کم عمر شخصیت ہیں جو 39 برس کی عمر میں چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔

متعلقہ تحاریر