کیا وزیراعظم اعتماد کے 172 ووٹ حاصل کر پائیں گے؟

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم عمران خان کو حکومتی اتحاد کے 179 ووٹ ملیں گے۔‘

رواں ہفتے سینیٹ کے انتخاب میں حکمراں حکمراں جماعت تحریک انصاف کی اسلام آباد کی ایک نشست پر شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے اجلاس سنیچر کو ہوگا۔ سیاسی حلقوں میں مسلسل یہی موضوع زیربحث ہے کہ وزیراعظم کو کتنے ووٹ ملیں گے؟

وزیراعظم آج قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کے حصول کے لیے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 7 کے تحت طلب کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو قومی اسمبلی کے 341 اراکین میں سے سادہ اکثریت کے لیے کم از کم 172 اراکین کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ حکومتی اتحاد کے پاس 181 جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس 160 ارکان ہیں۔

وزیر اعظم کے سیاسی مخالفین یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا وہ ان ہی اراکین سے اعتماد کا ووٹ لیں گے جن کی وجہ سے ان کی جماعت کے امیدوار عبدالحفیظ شیخ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا؟ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے کہا ہے کہ ’وزیراعظم کہتے ہیں کہ ان کے 16 اراکین سینیٹ انتخاب میں بکے تو پہلے عمران خان انہیں نکالیں پھر اعتماد کا ووٹ لیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان اگر ان ہی اراکین سے اعتماد کا ووٹ لیں گے تو صاف و شفاف انتخابات اور بکاؤ مال کے خلاف کارروائی کا بیانیہ دفن ہوجائے گا۔‘

وزیراعظم کو اعتماد کے کتنے ووٹ ملیں گے؟

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے جمعے کے روز پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان کو حکومتی اتحاد کے 179 ووٹ ملیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا انتہائی دلیرانہ فیصلہ کیا ہے۔ حزبِ اختلاف کو امید نہیں تھی کہ وزیر اعظم اتنا بہادرانہ قدم اٹھائیں گے۔‘

حکومت اور حزبِ اختلاف کے اراکین کی تعداد

قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کی تعداد 157 ہے۔ جبکہ اتحادیوں میں ایم کیو ایم کی 7، مسلم لیگ (ق) اور بی اے پی کی 5، 5 نشستیں ہیں۔ جی ڈی اے کی 3، آل پاکستان مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کی ایک، ایک نشست ہے۔ جب کہ 2 آزاد اراکین کے ووٹ حکومتی پلڑے میں آنے سے حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں 181 ارکان کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب حزب اختلاف کے اتحاد کی جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) کے 83 اور پیپلزپارٹی کے 55 ممبران ہیں۔ متحدہ مجلس عمل پاکستان کی 15، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی 4 اور اے این پی کی ایک نشست ہے۔ جبکہ حزبِ اختلاف کو 2 آزاد امیدواروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

اعتماد کے ووٹ سے متعلق آئین کیا کہتا ہے؟

آئین کے تحت اگر صدر مملکت کو محسوس ہو کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں تو وہ اجلاس طلب کر کے وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتے ہیں۔

سینیٹ انتخاب

نواز شریف کے بعد عمران خان دوسرے وزیراعظم ہیں جو رضا کارانہ طور پر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے رہے ہیں۔

آئین کی شق 91 (7) وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے ہے جس میں درج ہے کہ وزیرِاعظم صدرِ مملکت کی خوشنودی کے دوران عہدے پر فائز رہیں گے لیکن صدر اس شق (آرٹیکل 91 سب آرٹیکل 7) کے تحت اپنے اختیارات تب تک استعمال نہیں کریں گے جب تک انہیں اطمینان نہیں ہو کہ وزیرِاعظم کو قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کا اعتماد حاصل  ہے۔ اس صورت میں صدر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کریں گے اور وزیرِاعظم کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم دیں گے۔

وزیراعظم اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکے تو حکومت ختم ہوجائے گی

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ آئین کے تحت اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد 6 مہینے تک عدم اعتماد کی تحریک نہیں آسکتی۔ اگر وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکے تو حکومت ختم ہو جائے گی۔

وزیر اعظم کے اتحادیوں سے رابطے

اعتماد کے ووٹ کے لیے وزیراعظم نے اپنے تمام اتحادیوں سے رابطہ کیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک ایک ووٹ ان کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے وفد نے خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں وزیراعظم سے ملاقات کی۔ عمران خان نے اتحادی جماعت سے اعتماد کے ووٹ کی درخواست کی جبکہ ایم کیو ایم نے وعدے پورے نہ کرنے کے حوالے سے اپنے تحفظات ان کے سامنے رکھے۔

جماعت اسلامی وزیراعظم کو ووٹ نہیں دے گی

جماعت اسلامی نے اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشست کے انتخاب میں میں ووٹ نہیں دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے اور قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے۔

پی ڈی ایم اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اعلان کیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بنیں گے یا یوسف رضا گیلانی؟

مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں خود عمران خان کے بقول بولی لگی تو وہ اس کا الزام کس کو دے رہے ہیں؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا عمران خان سنیچر کے روز ان ہی اراکین سے اعتماد کا ووٹ لینا چاہتے ہیں؟

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’حزبِ اختلاف کے قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے اس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں رہے گی۔‘

قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کا طریقہ کار

قومی اسمبلی کے قاعدہ 36 اور شیڈول دوم کے مطابق وزیراعظم اعتماد کا ووٹ ’قرارداد‘ کے تحت اور تقسیم کے ذریعے رائے شماری سے لیں گے۔

اجلاس شروع ہونے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی 5 منٹ تک ایوان میں گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کریں گے تاکہ پارلیمنٹ کی عمارت میں موجود تمام ارکان کی حاضری یقینی بلائی جا سکے۔ جس کے بعد ہال کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ اس طرح کوئی رکن ہال کے باہر یا اندر نہیں آسکے گا۔

قومی اسمبلی

اسپیکر قومی اسمبلی وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد پڑھنے کے بعد ارکان سے کہیں گے کہ ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کے خواہشمند شمار کنندگان کے پاس ووٹ درج کروا دیں۔ شمارکنندگان کی فہرست میں رکن کے نمبر کے سامنے نشان لگا کر اس کا نام پکارا جائے گا۔

قواعد کے تحت ووٹ درج ہونے کے بعد حزبِ اختلاف اور حکومتی ارکان اپنی اپنی لابیز میں انتظار کریں گے۔ تمام ارکان کے ووٹ مکمل ہونے کے بعد سیکریٹری قومی اسمبلی گنتی کا نتیجہ اسپیکر کے حوالے کریں گے۔

اسپیکر قومی اسمبلی دوبارہ 2 منٹ کے لیے گھنٹیاں بجائیں گے تاکہ لابیز میں موجود ارکان قومی اسمبلی ہال میں واپس آجائیں اور پھر اسپیکر قومی اسمبلی نتیجے کا اعلان کردیں گے۔

وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد منظور یا مسترد ہونے کے بارے میں قومی اسمبلی کے اسپیکر صدر مملکت کو تحریری طور پر آگاہ کرنے کے پابند ہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی ووٹ استعمال نہیں کریں گے جس کے بعد قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 180 بنتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن فیصل واوڈا ہائیکورٹ میں اپنا استعفیٰ پیش کر چکے ہیں تاہم قومی اسمبلی نے تاحال انہیں ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا ہے اور اس لیے وہ بھی ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔

متعلقہ تحاریر