کیا پدی کیا پدی کا شوربہ

کامران خان نے غیرجانبداری کا ثبوت دیا تو بھی ناقدین کو گراں گزرا۔

پاکستان کے معروف صحافی اور اینکر پرسن کامران خان کے ویڈیو  پیغامات پر صحافیوں کی بے وجہ اور بے تکی تنقید نے خود ان کی شخصیت اور پیشہ ورانہ ساکھ کا پول کھول دیا ہے۔ 62 سالہ کامران خان کا صحافتی رتبہ اس قدر بلند ہے کہ جس جماعت کو پسند کرتے ہیں اس پر تنقید کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہیں۔

پاکستان کے معروف صحافی اور اینکر پرسن کامران خان گذشتہ 2 روز سے اپنا ویلاگ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کررہے ہیں۔ انہوں نے 10 مارچ کو اپنا پہلا وی لاگ ٹوئٹر پر ڈالا جس میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے پر مبارکباد تو دی لیکن ساتھ ہی ان کی حکومت کی جانب سے برتنے والی کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کردی۔ کامران خان کے مطابق وزیر اعظم کو پنجاب میں ایک نئی ٹیم لانے کی ضرورت ہے۔ ویڈیو پیغام میں سینیئر صحافی نے نہ صرف ملک میں بڑھتی مہنگائی پر بھی وزیراعظم عمران خان کی توجہ دلائی بلکہ انہیں پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کی تبدیلی کا مشورہ بھی دیا۔

11 مارچ میں سینئر صحافی نے ایک اور ویڈیو پیغام شیئر کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ پچھلے وی لاگ پر انہیں کابینہ اراکین، سیاسی اتحادیوں اور اہم ریاستی شخصیات کی جانب سے ردعمل دیا گیا۔ سنیئر صحافی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بلاشبہ ملک میں معاشی کرپشن کا خاتمہ کیا لیک ڈیلیوری پوری طرح سے نہ ہوسکی۔ انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ساتھیوں کو حکومت کی پرفارمنس پر تشویش ہے جو شخص آپ سے یہ کہتا ہے کہ سب اچھا ہے وہ یقیناً آپ سے مخلص نہیں ہے۔

ویڈیو کے آخر میں سنیئر صحافی نے دوبارہ سے وزیراعظم کی حکومت کو مسائل گنوائے اور ساتھ ہی انہیں حل کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

کامران خان کے وی لاگز پر تنقید

کامران خان کے دونوں وی لاگز پر میڈیا کی ایسی شخصیات کی جانب سے تنقید سامنے آئی جن کا پیشہ ورانہ معیار اور ساکھ کامران خان کے معیار سے دور دور تک میل نہیں کھاتی تھی۔ سونے پر سہاگا تنقید بھی ایسی جس کا نہ سر تھا نہ پیر۔

اینکر پرسن عبداللہ سلطان نے کامران خان کو مخاطب کرکے لکھا کہ آپ کا ایڈیٹر بے تُکے بیک گراؤنڈ میوزک ڈال رہا ہے اسے ٹھیک کریں۔

صحافی اسد طور نے لکھا کہ مسلسل 5 دن تک اسٹاک مارکیٹ کریش کرنے پر اسٹاک مارکیٹ کے بڑے بروکر کی ہمت جواب دے گئی۔

کالم نویس عفت حسن رضوی نے کہا کہ سچ پوچھیں تو ان 2 برسوں میں کامران خان نے اپنی پچھلی صحافتی رپورٹس کی مٹی پلید کی ہے۔ عفت حسن رضوی نے کامران خان شو پر بھی بلاوجہ تنقید کے نشتر برسانا شروع کردیئے۔

مبشر زیدی نے ٹوئٹر پر تبصرے میں لکھا کہ وی لاگ سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ خان صاحب کے ساتھی ان سے زیادہ کامران خان سے باتیں شیئر کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

صحافی کیڑے نہ نکالے تو کیا کرے؟

کامران خان پر گذشتہ ڈھائی سالوں کے دوران جانبدارانہ رائے دینے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے دونوں وی لاگز میں غیرجانبداری کا ثبوت دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت پر تنقید کی اور ان کی حکومتی کمزوریوں پر توجہ دلائی۔ اس جراتمندانہ اقدام کو سراہنے کے بجائے مختلف سیاسی جماعتوں کے حامی صحافیوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لے لیا۔

سوال تو یہ ہے کہ کامران خان پر تنقید کرنے والے یہ صحافی خود کبھی غیرجانبداری کا ثبوت کیوں نہیں دیتے ہیں؟ وہ کیوں کبھی اس سیاسی جماعت کی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کرتے جن سے وہ وابستہ ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی صحافی کیوں کبھی یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے اشتہاری قرار دیئے جانے والے قائد ن لیگ میاں محمد نواز شریف کو وطن واپس لایا جائے۔

کامران خان کا صحافتی تجربہ

پاکستان کے سنیئر صحافی کامران خان نے سن 1985 سے صحافت کے شعبے میں قدم رکھا۔ انگریزی اخبار ڈیلی نیوز سے کام شروع کیا۔ سینئر صحافی دی نیوز انویسٹیگیشن یونٹ کے چیف بھی رہ چکے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں واشنگٹن پوسٹ کے واحد نمائندے تھے۔ ایک عرصے تک نیویارک ٹائمز اور لندن ٹائمز کے نمائندہ رہے۔ سینئر اینکر پرسن کو وائٹ ہاؤس میں سابق صدر جارج بش کا انٹرویو کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انہیں اس کے بعد صحافتی ایوارڈ سے بھی نوازہ گیا۔ سن 1989 میں کامران خان پر حملہ ہوا تھا۔ اُن کی والدہ کو کراچی کی لسانی تنظیم کے غنڈوں نے گھر میں گھس کر مارا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہار نہ مانی اور صحافت میں مذید آگے بڑھتے رہے۔

آج کامران خان عمر کی 62 بہاریں دیکھ چکے ہیں لیکن آج بھی بہادری سے کام کرتے جارہے ہیں۔ 2004 سے اب تک وہ ٹی وی چینل کے پرائم ٹائم سلاٹ میں لگاتار کامران خان شو کررہے ہیں جوکہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔

کامران خان کے صحافتی رابطوں کا یہ عالم تھا کہ جب 3 نومبر کو سابق وزیراعظم محترمہ بےنظیر بھٹو کی حکومت گئی تو اس سے پہلے وہ یکم نومبر کو اس حوالے سے خبر دے چکے تھے۔ یہاں تک کہ خود بھی ایک مرتبہ سب کے سامنے کامران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری حکومت گرنے کی وجہ یہ صاحب بخوبی جانتے ہیں ان سے پوچھ لیں۔

اِس معیار کی صحافت کرنے شخص پر جب تنقید بھی کی جائے تو کم از کم وہ کرے جس کا تجربہ یا عمر ہی کم از کم کامران خان کے برابر ہو۔ جن صحافیوں نے تنقید کرنے کی کوشش کی وہ دراصل تنقید سے آگے برھ کر ٹرولنگ تک پہنچ گئے تھے جو کہ قانونی طور پر جرم ہے۔

ایک بات جو قابلِ ذکر ہے وہ یہ کہ کامران خان کو کبھی اپنے کسی تنقید کرنے والے یا پھر ٹرول کرنے والے کا جواب دیتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ہے۔

متعلقہ تحاریر