پبلک اور ہم نیوز میں صحافیوں کی معیشت اور صحت کا استحصال

پبلک نیوز میں تنخواہیں نہیں ادا کی جارہیں جبکہ ہم نیوز میں ملازمین کی صحت کو شدید خطرات درپیش ہیں۔

پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں صحافیوں کے پیشہ ورانہ استحصال کی داستان نئی نہیں ہے لیکن اب معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ بنیادی صحت کے معاملے میں بھی لاپرواہی نے صحافیوں کی کمر ہی توڑ ڈالی ہے۔ پبلک نیوز میں باوجود صحافیوں کے احتجاج کے کئی کئی ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں جبکہ ہم نیوز میں کارکنان کے کووڈ 19 ٹیسٹ مثبت آنے کے باوجود اُن سے کام لیا جا رہا ہے۔

پبلک نیوز پاکستان کے نئے ٹی وی چینلز میں سے ایک ہے جسے شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے لیکن وہاں کے معاشی مسائل اِس قدر بڑھ گئے ہیں کہ کارکنان کی 4 سے 12 ماہ تک کی تنخواہیں واجب الادا ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنسلٹ (پی ایف یو جے) نے پبلک نیوز میں تنخواہوں کی ادائیگی کی یقین دہانی کے باجود تنخواہیں نا دینے پر احتجاج کیا تھا لیکن معاملہ پھر یقین دہانیوں پر ختم ہوا اور نتیجہ وہی پرانا۔ اِس معاملے پر پاکستان کے نجی ٹی وی چینل سے تعلق رکھنے والے صحافی نے لب کشائی کی ہے جو اپنے بے لاگ تبصروں کی وجہ سے مشہور ہیں۔

پبلک نیوز میں ملازمین نے گذشتہ دنوں یقین دہانیوں اور وعدوں سے تنگ آکر ہڑتال کی اور انتظامیہ کو مجبوراً حالات حاضرہ کا ایک دن پرانا پروگرام چلانا پڑا۔ ایسی صورتحال میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنسلٹ کے رہنما اور نیشنل پریس کلب کے سیکریٹری انور رضا کا تعلق بھی پبلک نیوز سے ہے لیکن اُس کے باوجود ادارے کے خلاف احتجاج کا دورانیہ اتنے گھنٹے بھی نہیں رہا جتنے ماہ کی تنخواہیں واجب ادا ہیں۔

پبلک نیوز میں جبار ٹھیکے دار اور اُن کے صاحبزادے اہم عہدوں پر فائز ہیں جن کا اِس سے قبل بھی نشریاتی ادارے چلانے کا تجربہ ہے لیکن اُس کے باوجود پبلک ٹی وی معاشی بحران کا شکار ہے جہاں تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہی ہیں۔

چینل پر چلنے والے اشتہارات کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ادارے کی معاشی حالت اتنی بری نہیں ہے جتنی دکھائی جا رہی ہے۔ پبلک نیوز میں ملک کے نشریاتی اداروں میں معتبر نام یوسف بیگ مرزا بھی کام کر چکے ہیں لیکن وہ معاون خصوصی بننے کے بعد بظاہر ادارے سے الگ ہوگئے ہیں۔

صحافی عدیل راجہ کے ٹوئٹ کے مطابق ادارے کے انتظامی و معاشی معاملات زیادہ تر ڈاکٹر اصغر چلاتے ہیں جو ادارے کے ایگزیٹیو ڈائریکٹر ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ اُن کی پہنچ دور تک ہے۔

اداروں کے کرتا دھرتاؤں کے نام سوشل میڈیا پر آنے کے بعد وہاں کام کرنے والے صحافیوں نے اپنے طور پر مالکان کا دفاع کرنا شروع کردیا ہے۔

فواد خورشید جو نیوز چینل کے سربراہ ہیں اُنہوں نے ڈاکٹر اصغر کے بارے میں صفائی پیش کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا جس میں اُن کے عہدے کے بارے میں وضاحت کی گئی تھی۔ ایک اور سینئر صحافی عامر متین نے بھی اِس کام میں اپنی آواز شامل کی ہے۔

اِس کے بعد نامور صحافی اور حالات حاضرہ کے شو کے میزبان ارشد شریف بھی میدان میں کود پڑے اور اُنہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ سینیئر صحافی بحائے لوگوں کی تنخواہوں کے معاملے کو اجاگر کریں اور استحصال میں شامل افراد کے خلاف آواز بلند کریں وہ اُن کا دفاع کررہے ہیں۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پبلک نیوز کو سرکاری اشتہارات کے تیسرے درجے سے بہتر کر کے دوسرے درجے پر ترقی دی گئی ہے لیکن اِس بات کی تصدیق یا تردید وزارت اطلاعات نے نہیں کی ہے۔

یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب حکومت خود قانون منظور کرانا چاہتی ہے کہ اُن اداروں کو سرکاری اشتہارات نہیں دیے جائیں جو اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہیں نا ادا کریں۔

حال ہی میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر اویس توحید، بتول راجپوت اور دیگر کئی میزبان ادارے کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ جبکہ رؤف کلاسرا نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ اُنہوں نے پبلک نیوز کو کیوں چھوڑا ہے؟

یہ بھی پڑھیے

سندھ میں ایک اور صحافی کا قتل

پاکستان کے ایک اور نیوز چینل ہم نیوز میں بھی صورتحال قدرے مختلف ہے جہاں تنخواہوں کا معاملہ نہیں ہے لیکن ملازمین کی صحت کو شدید خطرات درپیش ہیں۔ ہم نیوز کے ایک کارکن نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر نیوز 360 کو بتا یا ہے کہ ادارے میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر پر بالکل عمل نہیں ہو رہا ہے اور وہاں پورا عملہ روزانہ دفتر آتا ہے۔ اِس کے علاوہ وہاں 2 روز کے دوران 10 ملازمین کے کرونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں لیکن اُس کے باوجود انتظامیہ کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی اور عملے کو کام پر بلایا جارہا ہے۔

اِس سے قبل بھی ہم نیوز کے صدر دفتر میں 7 افراد میں ایک ساتھ کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔ ادارے میں موجود سینئر صحافی اور صحافتی تنظیمیں اِس پر بھی خاموش ہیں اور ہم نیوز انتظامیہ اِس معاملے سے یکسر انکار کر رہی ہے کہ وہاں اتنی بڑی تعداد میں ملازمین میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے۔

ہم نیوز کے ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ ادارے کے ڈائریکٹر نیوز عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور دفتر نہیں آرہے تھے جس کی وجہ سے وہاں افرادی قوت اور حالات حاضرہ کے شعبے کے افراد کا اثر و رسوخ بڑھ گیا تھا جو ملازمین کو بیماری کے دوران چھٹیاں نہیں دے رہا تھا۔

متعلقہ تحاریر