سیل لگانے والے برانڈ کی برطرف سیلز گرل جسم فروشی پر مجبور
برطرف کی جانے والی سیلز گرل نے نیوز 360 کی ٹیم کو اپنی دردناک کہانی سنادی۔

23 مارچ کو یوم پاکستان پر ملک کے مشہور برانڈز نے سیل تو لگادی لیکن اگر وہ اس سیل کے بجائے غریب ملازمین کو کرونا کی آڑ میں نوکری سے برطرف نہیں کریں تو شاید بہت سی خواتین جسم فروشی اور مرد منشیات فروشی نا کریں۔ ایک مشہور برانڈ کی برطرف کی جانے والی سیلز گرل نے نیوز 360 کی ٹیم سے گفتگو میں روداد سنائی ہے جس میں اچس ے انکشاف کیا ہے کہ وہ جسم فروشی سے قبل ایک برانڈ میں سیلز گرل تھی۔
یوم پاکستان پر ملبوسات کے تمام بڑے برانڈز اور فوڈ چینز نے دکھاوے کے لیے سیل لگادی ہے۔ ملک کے مشہور برانڈز گل احمد، کھاڈی، الکرم اور دیگر نے ملبوسات کی قیمتوں میں 20 سے 50 فیصد تک کمی کا اعلان کیا ہے۔
View this post on Instagram
برانڈز کے چند روپے کم کرنے سے خریداروں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر انہی پیسوں کا درست استعمال کرتے ہوئے ملازمین کو برطرف نہیں کیا جاتا اور انہیں وقت پر تنخواہ ملتی رہتی تو متعدد لوگوں کے گھروں کے چولہے جلتے رہتے اور کئی حالات سے تنگ آکر غلط یا دشوار راستے کا انتخاب نہیں کرتے۔
گذشتہ برس کرونا کی آڑ میں مختلف برانڈز نے ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا تھا۔ جس کے بعد متعدد افراد پریشانی کے باعث دنیا سے کوچ کرگئے جبکہ دیگر پیچیدہ راستوں کا مجبور انتخاب کیا۔
View this post on Instagram
ایک سال قبل ملبوسات کے مشہور برانڈ میں سیلز گرل کے طور پر کام کرنے والی 19 سالہ لڑکی نے نیوز 360 کی ٹیم سے گفتگو میں اپنی دردناک کہانی سنادی۔
خاتون نے بتایا کہ پچھلے سال انہیں کرونا کے باعث لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کے دوران اچانک نوکری سے نکال دیا گیا تھا جس کے بعد انہیں اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً جسم فروشی کے پیشے سے منسلک ہونا پڑا تھا۔
خاتون نے اشکبار لحجے میں بتایا کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے انہیں نوکری نہیں مل رہی ہے لیکن اگر انہیں دوبارہ نوکری مل جائے تو وہ فوری طور پر اس پیشے کو چھوڑنے کو تیار ہیں۔
یہ نوجوان لڑکی جس کا نام اور شناخت خفیہ رکھی جا رہی ہے کراچی کے سب سے پوش علاقے زمزمہ میں سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر جسم فروشی کررہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
ثروت گیلانی کے لباس پر سوشل میڈیا پر تنقید
کسی کے غلط پیشے کو اختیار کرنےکی کوئی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بنی نوع انسان کئی ایسے اقدام کرتا ہے جسے سوچ کر عقل دنگ رہ جائے۔
یہ تو صرف ایک خاتون کی کہانی ہے۔ نوکریوں سے برطرف کیے جانے والے ہزاروں افراد آج بھی سڑکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملازمین کے منہ سے نوالہ چھیننے والے ’برانڈز‘ سیل سے مارکیٹنگ کرکے مزید منافع تو کمارہے ہیں لیکن معاشرے کو مزید اندھیرے میں دھکیل رہے ہیں۔