روح افزا جنوبی ایشیا میں رمضان کی روایت کیسے بنا؟

پھل اور سبزیوں سے تیار کردہ مختلف اقسام کے پکوان افطار کے وقت دسترخوانوں پر موجود ہوتے ہیں مگر اب مصنوعی لال شربت بھی اہم جزو ہے

ماہ رمضان میں ہر خاص و عام مسلمان کے دسترخوان پر سحر و افطار میں اللہ تعالیٰ کی قدرتی اور فطری طور پر تیار کردہ نعمتیں موجود ہوتی ہے۔ پھل اور سبزیوں سے تیار کردہ مختلف اقسام کے پکوان افطار کے وقت دسترخوانوں پر موجود ہوتے ہیں مگر اس افطار میں اب مصنوعی لال شربت اہم جزو ہے اور روح افزا کو لال شربت کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس لال شربت کے بغیر افطاری کا دسترخوان نامکمل ہوتا ہے۔

ابتدائی دور میں لال شربت کی قیمت ایک روپے چار آنے رکھی گئی تھی۔ آج سے 100 سال پہلے روح افزا راجاؤں اور نوابوں میں مقبول ترین مشروبات میں سے ایک تھا۔

اس وقت بازاروں میں یہ لال شربت روح افزا، جام شریں، دل بہار اور مشروب جاں جیسے مختلف ناموں میں دستیاب ہے۔ ایک لیٹر لال شربت کی بوتل 250 سے 300 روپے میں باآسانی مارکیٹ سے مل جاتی ہے۔

روح افزا کی تاریخ

حاجی عبد المجید نے 1904ء میں ہمدرد دواخانہ کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کی تجارت بھی شروع کی تھی۔ ہمدرد دکان کو چلانے کے لیے حکیم عبدالمجید نے نباتات سے دوائیں بنانا شروع کی تھیں۔ ان کی اہلیہ رابعہ بیگم نے ہر مرحلے پر اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا۔ ہمدرد دواخانے کی پہلی دوائی حب مقوی معدہ تھی۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا کا سب سے طویل اور مختصر ترین روزہ کہاں ہوگا؟

حکیم عبدالمجید کے ہمدرد دواخانے میں حکیم استاد حسن خان بھی طبیب اور ادویہ سازی کے شعبے سے وابستہ تھے۔ ان کا تعلق انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر سہارنپور سے تھا لیکن تلاش معاش میں وہ دہلی آبسے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔

سن 1907 میں مختلف پھلوں، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کے شربت انفرادی طور پر دستیاب تھے۔ مثلاً شربت گلاب، شربت صندل، شربت انار، شربت سنگترہ، شربت کیوڑہ وغیرہ اپنی تاثیر اور ذائقے کے لحاظ سے مختلف تھے۔ ہمدرد دوا خانہ کے بانی چاہتے تھے کہ پھلوں، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کو ملا کر ایک ایسا بےنظیر و بےمثال نسخہ ترتیب دیا جائے جو ذائقے اور تاثیر میں اپنی مثال آپ ہو اور ایسا معتدل ہو کہ بچے سے بوڑھا تک ہر مزاج کا شخص اس کو استعمال کر سکے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے نسخے کا نام تبدیل کر کے اسے کاروبار بنایا اور یہیں سے روح افزا کی تیاری پر کام شروع ہوا۔ حکیم استاد حسن خان نے اپنی تمام حکمت و خواص اور جڑی بوٹیوں کا تجربہ روح افزا کے نسخہ و ترکیب میں مزید سمو دیا۔ اگر صرف روح افزا کی تیاری پر ہی ان کو استاد کے لقب سے نوازا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ لیکن افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ حکیم استاد حسن خان گمنامی کی زندگی بسر کر گئے ورنہ بجا طور پر وہ تمغہ حسن کار کردگی کے مستحق تھے۔

روح افزا

انڈیا کے ہمدرد وقف دواخانہ و لیبارٹریز کی ویب سائٹ پر ان کا تعارف بحیثیت روح افزا کے اولین نسخہ ساز کی حیثیت سے درج ہے۔ ‎روح افزا میں شامل چیدہ چیدہ اجزاء اپنی تاثیر میں بےمثال تھے۔

حکیم صاحب نے روح افزا میں جن جڑی بوٹیوں کا استعمال کیا ان میں تخم خرفہ، منقہ، کاسنی، نیلوفر، گاؤ زبان اور ہرا دھنیا وغیرہ شامل ہیں۔ پھلوں میں سنگترہ، انناس، گاجر اور تربوز وغیرہ کو روح افزا کے نسخے میں استعمال کیا گیا ہے۔

سبزیوں میں سے پالک، پودینہ اور ہرا کدو وغیرہ اور پھولوں میں گلاب، کیوڑہ، لیموں اور نارنگی کے پھولوں کا رس، خوشبو اور ٹھنڈک میں بےمثال خس اور صندل کی لکڑی وغیرہ کا بھی استعمال کیا گیا اور جو شربت تیار ہوا وہ بلاشبہ روح افزا کہلانے کا ہی مستحق تھا۔ آج تقریباً 110 سال گزرنے کے باوجود روح افزا کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ہے۔ ‎

گو یہ مشروب تاثیر میں ٹھنڈا ہے لیکن رمضان خواہ گرمیوں کے ہوں یا جاڑوں کے افطار میں لال شربت ایک لازمی جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھل فروشوں کی دکان پر آپ کو لازمی روح افزا بھی ملے گا۔

مختلف مواقع پر تحفے تحائف کے ساتھ جو پھلوں کے ٹوکرے (جس کو ڈالی بھی بولا جاتا ہے) میں آپ کو ست رنگے پھلوں کے ساتھ روح افزا کی بوتل لازمی ملے گی۔ مہندی مایوں کی تقریب میں بھیجی جانے والی ڈالی میں بھی روح افزا کی بوتلوں کی جوڑی لازمی سجائی جاتی ہے۔

اب سے تقریباً بیس پچیس برس قبل ہمدرد اپنے روح افزا کے اشتہار میں دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اب تک اس مشروب کی اتنی بوتلیں تیار کر چکے ہیں کہ اگر ان بوتلوں کو قطار سے زمین پر رکھا جائے تو پورے کرہ ارض کے گرد ایک حلقہ مکمل ہو جائے گا۔

افسوس کہ اب روح افزا کی وہ خوشبو ہے اور معیار نہیں ہے پھر بھی حکیم سعید کی زندگی تک روح افزا بہرحال اپنا معیار ایک حد تک برقرار رکھے ہوئے تھا۔ لیکن ان کے بعد روح افزا بھی گویا اپنی روح سے محروم ہوگیا ہے۔

اس کی ایک تو وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ شربت کی تیاری میں شامل کچھ اجزاء اب انتہائی مہنگے داموں ملتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہمدرد دواخانہ استعمال نہیں کرتا اور کچھ اجزاء کو غالباً انڈیا سے بھی درآمد کیا جاتا ہے۔​

متعلقہ تحاریر