اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے پروفیسر ہراسگی پر برطرف

اب صوبائی محتسب کے پاس صرف طالبات ہی نہیں بلکہ کئی خواتین ملازمین کی جانب سے بھی ہراسگی کے مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے چیئرمین ڈاکٹر امیر اللہ کو ہراسگی کے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسگی کی جانب سے نوکری سے فارغ کرنے کا فیصلہ آچکا ہے۔ اب صوبائی محتسب کے پاس صرف طالبات ہی نہیں بلکہ کئی خواتین ملازمین کی جانب سے بھی ہراسگی کے مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی طالبہ آمنہ اشفاق نے اپنے ہی شعبے کے چیئرمین ڈاکٹر امیر اللہ کے خلاف ہراسگی کا الزام لگایا تھا۔ ڈاکٹر امیرا اللہ کے خلاف باقاعدہ طلبہ و طالبات نے یونیورسٹی کے اندر اور باہر مظاہرہ کیا تھا تو اس وقت بھی کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ فیصلہ طالبہ کے حق اور چیئرمین کے خلاف آسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر مستعفی

ابتداء میں جب طلبہ و طالبات نے احتجاج کیا تو انہیں ہر طرح سے ڈرایا دھمکایا گیا اور اس مسئلے پر خاموش رہنے کو کہا گیا۔ لیکن ڈاکٹر امیر اللہ کے خلاف اس ایک چھوٹے سے احتجاج نے اس وقت توانا شکل اختیار کی جب بات خیبرپختونخوا اسمبلی تک پہنچی۔ پیپلز پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکِزئی نے نہ صرف اس مسئلے پر قرارداد جمع کی بلکہ شفاف کمیٹی کے ذریعے ملوث فرد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔

جس کے بعد گورنر انسپیکشن ٹیم، جوائنٹ انوسیٹی گیشن کمیٹی اور صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسگی کی کمیٹی نے مختلف پہلوؤں سے اس کیس کی تحقیقات کیں، فریقین کے دلائل سنے اور اب بالآخر فیصلہ ڈاکٹر امیر اللہ کے خلاف آچکا ہے۔

اس کیس کے حوالے سے جب صوبائی محتسب رخشندہ ناز سے نیوز 360 نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اس وقت کئی خواتین کی جانب سے 70 سے زیادہ ہراسگی کے مقدمات درج کیے جاچکے ہیں اور کئی سائبر کرائم کے کیسز متعلقہ اداروں کو بھی بھجوائے گئے ہیں۔ اب ماضی کی نسبت خواتین میں ہراسگی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت اور شعور زیادہ آچکا ہے۔

رخشندہ ناز نے ڈاکٹرامیر اللہ کیس کے فیصلے پر موقف دینے سے معذرت کی۔

دوسری جانب یونیورسٹی کے ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا کہ ڈاکٹر امیر اللہ کے خلاف تمام انکوائری شفاف طریقے سے کی گئی ہے۔ تمام تحقیقاتی کمیٹیوں کو ہراسگی کی روک تھام کے لیے بنائی گئی یونیورسٹی کی کمیٹی نے ثبوت فراہم کیے ہیں۔ اس لیے اس کیس میں اپیل کی صورت میں بھی ڈاکٹر امیر اللہ کے بچنے کے امکانات کم ہیں۔

واضح رہے ڈاکٹر امیر اللہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے وزیر اعلیٰ یا ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

خیبرپختونخوا کی کسی جامعہ میں ہراسگی کا واقعہ کوئی پہلی مرتبہ  پیش نہیں آیا ہے۔ رواں سال جنوری میں گومل یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد زبیر کو ہراسگی کا الزام ثابت ہونے پر نوکری سے برطرف کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

گومل جامعہ ہے یا جنسی ہراسگی کا مرکز ؟

اسی طرح مارچ 2020 میں گومل یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی میں ملوث 4 ملازمین کو نوکری سے برطرف کیا گیا تھا۔ جنسی ہراسگی کے الزام میں فارغ کیے جانے والے ملازمین میں پروفیسر ڈاکٹر بختیار خان، اسسٹنٹ پروفیسر عمران قریشی، حکمت اللہ گیم سپروائزر اور حفیظ اللہ لیبارٹری اٹینڈنٹ شامل تھے۔

صوبہ خیبرپختونخوا کی گومل یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کا سب سے پہلا واقعہ 2010ء میں رپورٹ ہوا تھا۔ اب اِن کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نومبر 2020 میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات نے انتظامیہ کے خلاف احتجاجی ریلی بھی نکالی تھی۔

متعلقہ تحاریر