پارلیمنٹ کا خزانے کو روزانہ 4 کروڑ روپے کا جھٹکا
عوام کے ٹیکسز پر چلنے والی قومی اسمبلی نشستاً، گفتاً اور برخاستاً کی مثال بنی ہوئی ہے۔
قومی اسمبلی کا تیسرا پارلیمانی سال جہاں 12 اگست کو مکمل ہونے جا رہا ہے وہاں عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جس ایوان کی اخراجات غریب قوم کے ٹیکس سے پورے ہوتے ہیں اس کی کارکردگی کیا ہے۔؟ ایک اندازے کے مطابق پارلیمنٹ کے ایک دن کے اجلاس پر 4 کروڑ روپے سے زیادہ کے اخراجات آتے ہیں جن میں ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں اور مراعات کے علاوہ پارلیمنٹ ہاؤس کے دفتری اخراجات و عملے کی تنخواہیں بھی شامل ہیں۔
پارلیمنٹ یعنی ایوان بالا اور ایوان زیریں معزز ہیں، اور پارلیمانی نظام انہیں اداروں پر استوار ہے جہاں عوام کے ملک بھر سے منتخب نمائندے قانون سازی کے فرائض انجام دیتے ہیں یہ دونوں ادارے عوام کی امیدوں کا مرکز ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
شپ یارڈ میں پہلے شپ لفٹ اینڈ ٹرانسفر سسٹم کی افتتاحی تقریب
خارجہ امور ہو یا معاشی پالیسیاں کوئی ایک معاملہ بھی پوری معنویت کے ساتھ یہاں زیر بحث نہیں آتا اور یہ دونوں ادارے نشستاً گفتاً برخاستاً کی مثال معلوم ہوتے ہیں۔ عوام میں بھی یہی تاثر عام ہے کہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ ایوان میں قانون سازی کی بجائے زیادہ تر معاملات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
کشمیر پر قرارداد آتی ہے تو کسی جماعت کے پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت نہیں کی جاتی۔ کابینہ میں وزیر اور مشیروں کی فوج ظفر موج ہے مگر پارلیمان میں اکثر سوالات کے جواب دینے کے لیے کوئی موجود نہیں ہوتا۔ ملک کو داخلی و خارجی ، تزویراتی اور معاشی مسائل سمیت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے مگر کیا پارلیمان اس حوالے سے ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ ان معاملات میں پارلیمان کا اجتماعی شعور کم ہی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ایوان بالا یعنی سینیٹ جیسے اعلی ترین ادارے کو بھی بعض اوقات عضو معطل بنا دیا جاتا ہے اور چار چار ماہ تک اجلاس نہیں بلائے جاتے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس، کورم اور کارکردگی
یہ جملہ موجودہ حکومت کی 3 برسوں کے دوران پارلیمان کی رپورٹنگ کے دوران عام سننے کو ملا ہے۔ 12 اگست 2018 کو وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کی تینوں برسوں میں کورم کا مسئلہ سرفہرست رہا ہے۔ قومی امور پر بحث اور قانون سازی اسی وقت ممکن ہے جب ارکان پارلیمان کی مناسب تعداد ایوان میں موجود ہو۔
جہاں بنیادی طور پر کورم پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے وہاں اپوزیشن کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
قومی اسمبلی میں منگل 10 اگست کو ایک موقع پر صرف 8 موجود تھے۔ رواں برس 22 جون کو بجٹ اجلاس میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آ چکی ہے، جب حیران کن طور پر صرف 16 ارکان ایوان میں موجود تھے، جن میں حکومت کے صرف 2 اور اپوزیشن کے 14 ارکان شامل تھے اور کسی نے کورم کی نشاندہی نہیں کی۔ ذرائع کے مطابق بجٹ اجلاس میں کورم کی نشاندہی نہ کیے جانے کی غیر اعلانیہ مفاہمت کی گئی تھی۔
3 برس سے جاری یہ صورت حال حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی غیرسنجیدگی کا مظہر ہے۔
کورم کے حوالے سے اسمبلی کے قواعد
اسمبلی قواعد کے مطابق کورم کے لیے اسمبلی کی کل رکنیت کے ایک چوتھائی یعنی 86 ارکان کا ایوان میں موجود ہونا لازمی ہے۔ اگر دوران اجلاس صدارت کرنے والے شخص کی توجہ اراکین کی حاضری کی جانب مبذول کرائی جائے تو یا تو وہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردے گا یا اجلاس کو اس وقت تک کے لیے معطل کردے گا جب تک ایک چوتھائی ارکان حاضر نہ ہو جائیں۔ کورم کا مسئلہ نشاندہی کے ساتھ مشروط ہے لہٰذا اگر ارکان اتفاق رائے سے کورم کی طرف توجہ نہ دلانا چاہیں تو یہ شق ان کی صوابدید پر منحصر ہے۔
کچھ مواقعوں پر اراکین آپس میں اتنے الجھے کے ایوان مچھلی بازار بن گیا اور ہاؤس کو آرڈر میں رکھنے میں ناکامی پر اسپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
موجودہ اسمبلی اور پارلیمانی تاریخ کا انوکھا واقعہ
پارلیمانی تاریخ میں ایسی بہت کم مثالیں موجود ہیں جہاں حکومتی بینچز نے قانون سازی یا حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارکان کی طرف سے سوالات کا جواب دینے کے بجائے کورم کی نشاندہی کی ہو، مگر موجودہ اسمبلی میں یہ انوکھی مثال قائم کی گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک موقع پر وقفہ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ وزیر توانائی عمر ایوب جوابات کے لیے ایوان میں موجود نہیں ہیں جس پر حزب مخالف کے ارکان نے برہمی کا اظہار کیا۔ حکومتی بینچوں میں موجود ارکان نے یہ صورتحال دیکھی تو متعدد ارکان ایوان سے چلے گئے اور بعد میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن جنید اکبر نے کورم کی نشاندہی کردی۔ کورم پورا نہ ہونے پر اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی موخر کردی جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج بھی کیا تھا۔
کورم کی نشاندہی کے باوجود اجلاس جاری
موجودہ حکومت کے دور میں کئی مرتبہ اپوزیشن کی جانب سے کورم کی نشاندہی کے باوجود قومی اسمبلی کا اجلاس جاری رکھا گیا اور قانون سازی بھی کی گئی ، مگر اس طرح کی قانون سازی پارلیمان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہوتی ہے۔ اس صورتحال پر حزب اختلاف نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت ارکان کو باقاعدہ چھٹی کی درخواست دینا ہوتی ہے لیکن اکثر اس کا تردد نہیں کیا جاتا، ہر محکمے کی چھٹیوں کا کوئی ضابطہ اور تادیب ہے لیکن اراکین پارلیمان سے کوئی سوال نہیں کیا جا سکتا کہ جناب آپ عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور عوام کے مسائل اجاگر کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، اس لئے ایوان میں آ کر اپنی ذمہ داری تو ادا کیجیے۔ قومی اسمبلی کے ارکان خود ہی قانون ساز ہیں اس لیے انہوں نے یہ قانون بنا رکھا ہے کہ جو رکن اسمبلی مسلسل 40 اجلاسوں میں نہیں آئے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ مسلسل چالیس اجلاس سے غیر حاضری کی رعایت منتخب ارکان کی کارکردگی مراعات کے حصول اور عوام کی نمائندگی کے معاملے پر سوالیہ نشان ہے۔
گرفتار اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کے معاملے پر اپوزیشن کے احتجاج کے باعث اسپیکر کو سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک سال کے دوران قومی اسمبلی کے 130 اجلاس بلانا ضروری
آئین کے مطابق ایک پارلیمانی کلینڈر میں قومی اسمبلی کی کارکردگی جاننے کے لیے 130 دن اجلاس بلایا جانا ضروری ہے۔ گزشتہ پارلیمانی سال کی تکمیل میں بھی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پارلیمانی سال کے اختتام سے قبل اپوزیشن کے تعاون سے قومی اسمبلی کے طویل اجلاس بلانے پڑے تھے۔ رواں پارلیمانی سال کے دوران حکومت کی غیرسنجیدگی کے سبب قومی اسمبلی اس پارلیمانی سال میں بھی اپنے دن پورے نہیں کر سکی اور جس دن اجلاس ہوا اور جب اجلاس ختم ہوا تو کورم کے سنگین مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا۔