جشن آزادی پر ہم کس سے آزادی مانگ رہے تھے؟
بغیر سائلنسر کے موٹرسائیکلز کی ریس، باجوں اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہا۔
پاکستان میں جشن آزادی قومی جوش وجذبے سے منایا گیا۔ سرکاری سطح پر منعقدہ تقاریب میں کرونا ایس او پیز کا خیال رکھا گیا لیکن مختلف شہروں میں عوام بغیر کسی ایس او پیز کے سڑکوں پر جشن مناتے ہوئے نظر آئے۔ نوجوان بغیر سائلنسر کے موٹرسائیکلز پر باجے بجاتے رہے جس کے باعث عمر رسیدہ افراد اور بیمار شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کا یوم آزادی روایتی طور پر تو ڈھول اور بھنگڑوں کے ساتھ منایا جاتا ہے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ وطن کی خوشیوں کو منانے کا انداز بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ اب ڈھول کی جگہ باجوں نے لے لی ہے جو کہ معمر افراد اور بیمار شہریوں کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں۔
ملک بھر کی طرح کراچی میں یوم آزادی کے موقعے پر لوگ اپنے خاندان کے ہمراہ سڑکوں پر نکل پڑے۔ کرونا وائرس کی سنگین صورتحال کے باوجود شہری بے مقصد سڑکوں کی سیر کرتے رہے۔ شہر میں نوجوان رات بھر پٹاخے پھوڑتے رہے اور آدھی رات کو بھاری اسپیکرز کے ساتھ موسیقی بجاتے نظر آئے۔ مزار قائد، شاہراہ فیصل، سی ویو سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں نوجوان اور بچے باجوں اور بغیر سائلنسر والی موٹرسائیکلز پر نکل کر شہریوں اور بیمار افراد کے آرام میں خلل کا باعث بنے لیکن پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے
جشن آزادی پر قومی پرچم کے وقار کی بلندی کے لیے خصوصی اقدامات
اس حوالے سے معمر افراد اور سیاسی وسماجی حلقوں کا کہنا تھا کہ وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن کرونا کی صورتحال میں آزادی کے دن بلاوجہ گھروں سے باہر نکلنا، سڑکوں پر باجے بجانا اور ہوائی فائرنگ کرنے سے ہم کیا پیغام دینا چاہ رہے تھے۔
یوم آزادی ہمیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ 14 اگست پر ہمیں شہریوں کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بننے کے بجائے وطن کی خدمت کے نئے عزم کا اظہار کرنا چاہیے۔