کراچی کے لیگی رہنماؤں میں اختلافات شہباز شریف کے لیے چیلنج
مفتاح اسماعیل نے 40 رہنماؤں کے ہمراہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے کراچی میں جلسے سے قبل ہی مسلم لیگ (ن) میں اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کراچی سے تعلق رکھنے والے 40 رہنماؤں کے ہمراہ عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
پی ڈی ایم نے 29 اگست کو کراچی میں پاور شو دکھانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، صدر ن لیگ شہباز شریف اور حکومتی اتحاد سے الگ ہونے والے اختر مینگل سمیت دیگر رہنما خطاب کریں گے۔ پی ڈی ایم سے علحیدگی کے باعث پیپلزپارٹی نے جلسے میں شرکت کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
پی ڈی ایم کے جلسے سے قبل ہی ن لیگ کی کراچی کی قیادت میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ مسلم لیگ ن سندھ کے جنرل سیکریٹری مفتاح اسماعیل 40 دیگر رہنماؤں کے ہمراہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ مفتاح اسماعیل نے اپنا استعفیٰ پارٹی صدر شہباز شریف کو بھی بھیج دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کیا اگلے چھ ماہ میں پورے پاکستان کو کرونا ویکسین لگ جائے گی؟
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ میں اختلافات کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں ٹکٹ دینے پر شروع ہوئے تھے۔ اس مسئلے پر کچھ پارٹی رہنماؤں نے کراچی میں مسلم لیگ ن کے دفتر میں ہنگامہ آرائی کی تھی، ایکشن نہ لیے جانے پر پارٹی رہنما مستعفی ہوئے۔ پی ڈی ایم کے جلسے سے قبل شہباز شریف 27 اگست کو کراچی پہنچیں گے جہاں وہ سندھ کے پارٹی رہنماوٴں کو منانے کی کوشش کریں گے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی اختلافات کے بعد شہباز شریف کے لیے امتحان کی گھڑی ہے، اب دیکھنا ہوگا کہ وہ مریم نواز کے حامی لیگی رہنماؤں کو ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا اس میں بھی پارٹی قائد نواز شریف کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
کراچی کے متعدد لیگی رہنما پی ڈیم ایم کے جلسے میں مریم نواز کے بجائے شہباز شریف کی شرکت پر بھی افسردہ ہیں۔ اگر ن لیگ کی قیادت جلسے میں کارکنان کو جمع نہ کرسکی تو آنے والے وقت میں پارٹی کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق شہباز شریف مفاہمتی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ 29 تاریخ کو جلسے میں ن لیگ کون سے بیانیے کو لے کر آگے چلتی ہے۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے نیوز 360 سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کراچی کے جلسے میں شرکت کی دعوت نہیں ملی اور نہ ہی پارٹی نے جلسے میں شرکت سے متعلق کوئی فیصلہ کیا ہے۔ جس بات پر پارٹی قیادت کے پی ڈی ایم سے اختلاف ہوئے تھے، پیپلزپارٹی آج بھی اس پر قائم ہے۔