سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہراسگی کیس میں صحافیوں کا یوٹرن

عدالت عظمیٰ کے ریمارکس کے بعد پی اے ایس کے صدر امجد نذیر بھٹی نے کارروائی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں کی جانب سے ہراسگی کیس میں درخواست واپس لینے کے باوجود صحافتی آزادی سے متعلق کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ہم بطور جج سیاست نہیں کرسکتے اس لیے صحافیوں کو بھی سیاست نہیں صحافت کرنی چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز از خود نوٹس کیس واپس ہونے پر امیر میر ، اسد طور اور عبدالقیوم صدیقی سمیت تمام صحافیوں نے عدالت عظمیٰ سے اپنی درخواستیں واپس لے لی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پڑھے بغیر بل کی مخالفت پر صارفین کی مظہر عباس پر تنقید

واضح رہے کہ اس سے قبل صحافی ہراسگی کیس کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسٰی کررہے تھے۔

یاد رہے کہ قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کے دائرہ کار کا معاملہ اٹھایا تھا۔ بینچ میں دیگر ججز میں جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

بینچ نے فیصلہ دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ازخود نوٹس صرف چیف جسٹس آف پاکستان (CJP) کی صوابدید ہے۔ متعلقہ بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملے میں جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہونے والے تمام فیصلے منسوخ کردیے تھے۔

صحافیوں کی جانب سے کیس واپس لینے کی درخواست پر عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے چونکہ اب یہ کیس عدالت کا کیس بن چکا ہے اس لیے اب کوئی صحافی آئے یا نہ آئے کیس چلایا جائے گا اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ایک مرتبہ از خود نوٹس لے لیا تو پھر درخواست گزار کا مقدمہ عدالت کا مقدمہ بن جاتا ہے، کمرہ عدالت میں بے شک کوئی صحافی نہ ہو پھر بھی صحافیوں کا کیس چلائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے ریمارکس کے بعد پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ (پی اے ایس) کے صدر امجد نذیر بھٹی نے کارروائی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔

لیکن سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ وہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملے کو آگے بڑھائیں گے۔ عدالت نے یہ بھی ریمارکس دیے ہیں کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو طلب کرے گی اور جائزہ لے گی کہ آیا صحافیوں کے حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ہے۔

درخواستیں واپس لینے سے ان صحافیوں کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے جو اپنی کمیونٹی کی جانب سے ایک اہم مسئلے کی پیروی کر رہے تھے۔

صحافتی کمیونٹی کے دیگر ارکان سوال کررہے ہیں کہ کیا صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق تمام مسائل حل ہو گئے ہیں یا درخواست گزاروں کو عدالت عظمیٰ کے موجودہ بنچ پر اعتماد نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر