عدالت نے خاتون اینکرپرسن سے حاملہ ہونے کا ثبوت مانگ لیا
مجھے معلوم نہیں کہ جج صاحب کس طرح یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ حمل ہونا ایک میڈیکل مسئلہ ہے یا نہیں، تنزیلہ مظہر
نجی ٹی وی کی اینکرپرسن تنزیلہ مظہر کے یہاں ننھے مہمان کی آمد متوقع ہے لیکن عدالت یہ ماننے کو تیار نہیں، سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ہزاروں افراد کا تنزیلہ سے اظہار ہمدردی۔
تنزیلہ نے 2017 میں اپنے ساتھ ہونے والے ہراسگی کے واقعے کا مقدمہ درج کروایا تھا جس کے بعد دوسری پارٹی نے ان پر "defamation” کا مقدمہ درج کروایا اور اب خاتون اینکرپرسن اس کی پیشیاں بھگت رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
آئی بی اے میں ہراسانی کا واقعہ، طلبہ کا احتجاج جاری
حال ہی میں عدالت میں پیشی پر جانے سے معذرت کرنے پر جج صاحب نے تنزیلہ سے حاملہ ہونے کا ثبوت مانگ لیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تنزیلہ نے کہا کہ "میں اپنے پیچیدہ حمل کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوسکی۔ جج صاحب نے متعدد میڈیکل سرٹیفکیٹس طلب کیے، مجھے معلوم نہیں کہ جج صاحب کیسے یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ حمل سے ہونا ایک میڈیکل مسئلہ ہے یا نہیں”۔
Defamation cases are used to punish victims of harassment. I was unable to appear before court due to complicated pregnancy. Judge sahib asked for multiple medical certificates, I had no clue how he wanted to decide; a pregnancy is a medical condition or not, during that time 1/4
— Tanzeela Mazhar (@TenzilaMazhar) September 24, 2021
تنزیلہ نے مزید کہا کہ "اسی دوران میرا پاؤں فریکچر ہوگیا تھا جس کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کروادی لیکن جج صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ میری ڈیلیوری کی تاریخ رپورٹس میں واضح طور پر موجود ہے لیکن جج صاحب نے کہا کہ اگر میں ذاتی طور پر عدالت پیش نہ ہوئی تو وہ میرے وارنٹ گرفتاری جاری کیں گے۔”
My foot got fractured as well I sent that report also to court but still judge sahib was not satisfied. My due date of delivery was clearly mentioned bt judge sahib said If I won’t appear in person he will issue arrest warrants. Is this how courts deal with a pragnant woman 2/3
— Tanzeela Mazhar (@TenzilaMazhar) September 24, 2021
ایک طرف عدالت ایک حاملہ خاتون کو مقدمے کی پیروی کے لیے سختی کے ساتھ طلب کررہی ہے تو دوسری طرف گلوکار علی ظفر پر ہراسگی کا مقدمہ درج کروانے والی میشا شفیع پورے سال کے دوران ایک مرتبہ بھی پیشی پر نہیں گئیں۔
ہم سب کو اس بات کا ادراک ہے کہ عدلیہ پر کیسز کا بوجھ ہے، ملک بھر کی عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہیں لیکن معزز عدالت اگر تنزیلہ رحمان کو بچے کی پیدائش ہونے تک عدالتی پیشی سے استثنا دے تو اس سے عدالتی نظام پر کوئی سوال نہیں اٹھے گا۔
تنزیلہ کی ٹویٹس کے بعد صارفین نے بڑی تعداد میں ان کی حمایت کا اعلان کیا اور عدالتی نظام کی خرابیوں کا تذکرہ کرتے رہے۔
سینٹر فار ویمن ان جرنلزم کے آفیشل اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی گئی کہ عدالت نے تنزیلہ کی میڈیکل وجوہات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، یہ اقدام ہمارے عدالتی نظام میں خواتین سے نفرت کو ظاہر کرتا ہے”۔
#Pakistan: The court refused to accomodate @TenzilaMazhar‘s medical concerns. This highlights the misogyny embedded in the judiciary system. #CWFIJ is appalled at the insensitivity at display.
READ: https://t.co/pqXGKz6lGL pic.twitter.com/pfzH4MaAS3
— #WomenInJournalism (@CFWIJ) September 24, 2021
ایلیا زہرہ نے لکھا کہ جسنی ہراسگی کا نشانہ بننے والی متاثرہ خواتین سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ عدالت کیوں نہیں جاتیں؟ جب وہ خواتین عدالت جاتی ہیں تو عدالتی نظام ان کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے۔
Survivors of sexual harassment who speak up are told “court kyun nahi jaati?!” and when they do go to court this is how the justice system treats them. Stay strong @TenzilaMazhar. In solidarity https://t.co/f1BAC5vUuE
— Ailia Zehra (@AiliaZehra) September 24, 2021