عدالتیں سیاست کا محور؟
بابر اعوان کا کہنا ہے کہ مریم نواز کے متنازع بیان دینے پر ن لیگ پر پابندی لگ سکتی ہے۔
پاکستان میں عدالتیں بظاہر سیاست کا محور بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یا پھر سیاسی فیصلوں کے لیے عدالتوں کا رخ کرنے کی روایت عام ہو رہی ہے۔ پاکستان میں سیاست اور عدالت کی ایک تاریخ دیکھنے کو ملتی ہے۔
پہلا سیاسی مقدمہ
قیام پاکستان کے کچھ برسوں بعد مولوی تمیز الدین کیس میں ایسا پہلی بار ہوا۔ 1955 میں سامنے آنے والے اِس مقدمے میں گورنر جنرل غلام محمد کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیے جانے کو قانونی تحفظ ملا۔
وقت بدلتا رہا لیکن سیاسی معاملات عدالتوں میں لائے جاتے رہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی سے متعلق عدالتی مقدمات نے پاکستانی سیاست کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ بھی پڑھیے
انتخابی اصلاحات اور آئینی ترامیم
اب حال یہ ہے کہ سیاست میں قانونی لڑائی کے اثرات بڑھتے ہی نظر آرہے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں خاص طور پر (ن) لیگ کئی معاملات کو عدالت لے گئی ہے۔
آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کا تبادلہ ہوا تو (ن) لیگ نے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنچ کیا تھا۔ کرونا کے باعث حکومت نے پی ڈی ایم کے جلسے میں رکاوٹیں کھڑی کیں تو حزب اختلاف نے عدالت سے رجوع کیا۔
لیکن اِس حقیقت کو بھی کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ نواز شریف کو نا اہل کرانے کے لیے معاملہ عدالت میں لے جانے والی جماعت پی ٹی آئی فی الحال حکومت میں ہے۔
تازہ سیاسی مقدم
سیاسی معاملات کو عدالت سے حل کرانے کی تازہ مثال وہ مقدمہ ہے جس میں نواز شریف کی تقاریر پر سے پابندی ہٹوانے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیم اور چند صحافی عدالت پہنچ گئے۔
مریم نواز نے کچھ روز قبل برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسٹیبلیشمنٹ سے بات ہوسکتی ہے لیکن پہلے تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔
اس متنازع بیان کو تحریک انصاف کے سینئر رہنما اورمشیر برائے پارلیمانی امور بابراعوان نے غیرآئینی قرار دے دیا ہے۔
اُنہوں نے کہا ہے کہ حکومت گرانے کی باتیں معمولی نہیں ہیں ن لیگ پر ایسے بیان دینے پر پابندی لگ سکتی ہے۔
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے کہ عدالتیں ایک مرتبہ پھر سیاست کا محور بن گئی ہیں تو غلط نہ ہوگا۔