جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش، وزیراعظم کی معنی خیز خاموشی
وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک اعتماد پیش کرنے والوں میں بلوچستان عوام پارٹی اور تحریک انصاف کے اراکین سمیت دیگر اسمبلی ممبران شامل ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی بحران مزید سنگینی اختیار کرگیا ہے۔ صوبائی کابینہ کے تین وزراء سمیت 12 اتحادیوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف اسمبلی سیکریٹریٹ میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرادی ہے۔ تاہم اس ساری صورتحال میں وزیراعظم عمران خان اور بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی خاموشی کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان اسمبلی حکومت کے کولیشن پارٹنر (اتحادی) ہیں۔
اس ساری صورتحال کے پیش نظر گورنر بلوچستان سید ظہور احمد آغا رات کو اسلام آباد پہنچے ہیں جہاں وہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے اور وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف پیش ہونے والی تحریک اعتماد کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے
عامر لیاقت، مبشر اور سمیع کے تھپڑ کا بدلہ فواد چوہدری سے لیں گے
پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف اپنی ہی جماعت کے ارکان کی تحریک عدم اعتماد۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی ناراض ساتھیوں کو منانے کی کوششیں ثمرآور ثابت نہ ہوسکیں،ناراض حکومتی اور اپوزیشن ارکان جام کمال کو وزارت اعلٰی کے منصب سے ہٹانے کے لئے ہم آواز ہوگئے۔ جام کمال کے خلاف 14 ناراض حکومتی ارکان نے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی جسے اسپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 65 ارکان کے ایوان میں 33 اراکین کی ضرورت ہے۔
23 اراکین پر مشتمل اپوزیشن (جو پہلے ہی جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر چکی ہے-) نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کیا ہے.
تحریک عدم اعتماد حکومتی میں شامل ناراض ارکان کی جانب سے پیر کی شام بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی۔جس پر اراکین کے دستخط ہیں ان میں وزیر اعلیٰ کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے اراکین کے دستخط موجود ہیں۔
ناراض نہیں بلکہ متحدہ گروپ کہاجائے۔
ناراض حکومتی اراکین کا کہنا ہے کہ انہیں ناراض گروپ کی بجائے متحدہ گروپ کہا جائے۔ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والوں میں اراکین صوبائی اسمبلی سعید ہاشمی، جان جمالی، میر ظہور احمد بلیدی، اسد بلوچ، نصیب اللہ مری، سردار عبدالرحمٰن کھیتران سمیت دیگر اراکین اسمبلی شامل ہیں۔
بلوچستان میں کون کون استعفیٰ دے چکا۔؟ بلوچستان میں جہاں حزب اختلاف جام کمال وزیر اعلیٰ سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کررہی تھی وہاں رواں برس صوبائی بجٹ میں نظر انداز کئے جانے کا الزام لگاکر بعض حکومتی ارکان بھی ناراض ہوگئے اور جام کمال سے وزارت اعلٰی کا منصب چھوڑنے کا مطالبہ کردیا۔ناراض ارکان نے جام کمال کو استعفٰی کے لئے 6اکتوبر تک کی مہلت دی تھی مگر جام کمال نے استعفیٰ کی بجائے مقابلے کا فیصلہ کیا اور یوں بات تحریک عدم اعتماد تک پہنچ گئی۔
وزیر اعلیٰ جام کمال پہلے ہی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی صدارت سے استعفیٰ دے چکے ہیں تاہم جام کمال کا کہنا ہے کہ وہ 12 ،13 ارکان کے مطالبے پر استعفیٰ نہیں دیں گے اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے۔ وہ ناراض ارکان کو ملانے کے لئے ان سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں تاہم اب تک یہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔ صوبائی وزیر بلدیات سردار محمد صالح بھوتانی نے کچھ عرصہ قبل وزیراعلیٰ سے اختلافات پر استعفیٰ دے دیا تھا ۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے بھی ہائر ایجوکیشن کی وزارت سے استعفیٰ دیا تھا جنہیں بعد میں منالیا گیا۔ صوبائی کابینہ کے ناراض ارکان بھی گزشتہ ہفتے مستعفیٰ ہوچکے ہیں جن میں صوبائی وزراء عبدالرحمن کھیتران ، میر اسد بلوچ ، اور ظہور بلیدی،2 مشیروں میں حاجی ٘محمد خان لہڑی اور اکبر آسکانی شامل ہیں جبکہ 4 پارلیمانی سیکرٹیرز ، لیلی ترین ، بشریٰ رند، ماہ جیں شیران اور لالہ رشید بلوچ نے بھی گورنر بلوچستان کو استعفٰی پیش کردئیے تھے۔
حکومتی ارکان جام کمال سے کیوں ناراض ہیں۔؟
بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی ، بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے بعض اراکین کا الزام ہے کہ جام کمال پر ان کے عدم اعتماد کی وجہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی، خراب طرز حکومت اور ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا ہے۔ اور یہی الزامات عدم اعتماد کی جمع کرائی گئی تحریک میں لگائے گئے ہیں۔
ناراض ارکان اور وزیراعلی کے اکثریت کی حمایت کے دعوے
بلوچستان میں 65 کے ایوان میں حکومت سازی کے لئے 33ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ناراض حکومتی ارکان کا کہناہے کہ انہیں 15 حکومتی ارکان کی حمایت حاصل ہے،14 حکومتی ارکان کے دستخط تحریک عدم اعتماد پر موجود ہیں۔ اس طرح اپوزیشن سمیت ان کے ارکان کی تعداد 38ارکان بنتی ہے جو تحریک عدم اعتماد کی صورت میں جام کمال کے خلاف ووٹ دیں گے جبکہ وزیر اعلیٰ جام کمال کو 26ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
صوبائی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں
بلوچستان میں سب سے بڑی جماعت جام کمال کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 24 ہے جبکہ حکومت میں شامل دیگر جماعتوں میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 7, عوامی نیشنل پارٹی کی ارکان 4،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 2 اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن شامل ہیں۔جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد 23 ہے۔جن میں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر مشتمل متحدہ حزب اختلاف کے اراکین شامل ہیں، آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے نواب محمد اسلم خان رئیسانی بھی اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت گورنر کو تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے دو ہفتے کے اندر اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا ہوگا۔