ہمارا مقابلہ مافیا سے ہے ان کے خلاف آخری حد تک جائیں گے، وزیراعظم
سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد وزیراعظم کا پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ اور اتحادی جماعتوں کے اراکین سے دھواں دھار خطاب۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا مقابلہ مافیاز سے ہے ان کے خلاف آخری حد تک جائیں گے۔ یہ لوگ چینج نہیں آنے دیں گے۔ کیونکہ انہیں پتا ہے کہ تبدیلی آئے گی تو وہ تبدیلی ان کے لیے تباہی ہے۔ یہ لوگ نہیں چاہیں گے کہ فری اینڈ فیئر الیکشن ہوں ۔ کیونکہ اگر فری اینڈ فیئر الیکشن ہو گئے تو یہ لوگ پیسہ نہیں چلا سکیں جس طرح یہ لوگ پیسہ چلاتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج سانحہ اے پی ایس ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر وزیراعظم عمران خان کو سوال و جواب کے لیے عدالت میں طلب کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
احساس راشن پروگرام کا حصول کیسے ہوگا؟ ثانیہ نشتر نے بتا دیا
ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ، عدالت حکم دے ایکشن لیں گے، وزیراعظم
سماعت کے دوران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ہمیں حکم دے ہم سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داران کے خلاف ایکشن لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہم نے 20 اکتوبر کو جو حکم دیا تھا اس کے مطابق ذمہ داروں کو تعین کیا جائے۔ سانحہ 2014 میں پیش آیا رپورٹ 2019 میں پیش کی گئی۔
سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ اور اتحادی جماعتوں کے اراکین سے دھواں دھار خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم جو تبدیلی لانے جارہے ہیں آپ سب اس کو ایک جہاد سمجھنا ہے یہ آپ لوگ اپنی ذات کے لیے نہیں کررہے ، آنی وای نسلوں کے لیے کررہے ہیں، انتخابی اصلاحات اس لیے نہیں کررہے کہ اس میں عمران خان یا عمران خان کی ٹیم کا کوئی فائدہ ہے۔ ہم سب یہ جمہوریت کے لیے کررہےہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو اب تک اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میرا مقصد سیاست میں آنے کیا تھا۔ لوگ سیاست میں آکر ذاتی فائدے اٹھاتے ہیں۔ مگر میں سیاست میں آکر ملک کو بدلنے کے لیے آیا تھا۔ نیا پاکستان کا کانسیپٹ سادہ سا یہ تھا کہ ایک ایسا پاکستان بنانا ہے جو علامہ اقبال کے تصور کے مطابق ہوگا۔ ہمارے بانی پاکستان نے اپنے اوبجیکٹو میں بڑے واضح انداز میں پاکستان بنانے کا مقصد بتا دیا تھا۔ مثالی اسلامی فلاحی ریاست کا نظریہ پیش کیا تھا۔ علامہ اقبال نے تصور پیش کیا اور قائداعظم نے اسے عملی جامہ پہنایا ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے صحت کی پروا نہ کرتے ہوئے ملک کے لیے محنت کی ۔ ان کا بڑا خواب تھا کہ ایک عظیم ملک بنے گا۔ دنیا میں ایک مثال بنے گی کہ اصل میں اسلام کے اصولوں پر ایک ملک کیسے کھڑا ہو سکتا ہے۔ اور ایک عظیم قوم بن سکتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نبی ﷺ نے مدینہ میں ایک ماڈل بنایا تھا ۔ اصول انہوں سے سیٹ کیے تھے ۔ پہلے معاشرے کی اخلاقیات کو بلند کیا تھا۔ پھر وہی قوم جس کی کوئی حیثیت نہیں تھی انہوں نے دنیا کی امامت کی۔ وہ ماڈل سب سے کامیاب ماڈل تھا۔ سپر پاور اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ وہ تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے تو جو انسان ان کے راستے پر چلے گا وہ اوپر چلے جائے گا۔ ہم نے بھی 25 سال پہلے اسلامی فلاحی ریاست کی جدوجہد شروع کی تھی ۔ اگر آپ کی اختلاقیات قائم ہیں تو آپ کو ایٹم بم سے بھی ختم نہیں کیاجاسکتا ہے۔ جاپان کے اوپر دو ایٹم بم گرے وہ قوم دس سالوں میں دوبارہ کھڑی ہو گئی۔ جرمنی میں ایک عمارت نہیں تھی وہ قوم بھی سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ کیونکہ ان کی اخلاقیات قائم تھیں۔ بیروت کو مڈل ایسٹ کو پیرس کہتے تھے آج وہ فیل اسٹیٹ کے طور پر جانی جاتی ہے ۔ 75 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جانے لگے ہیں۔ اس کی تباہی کی کیا وجہ تھی ، ان کے نوجوانوں سے پوچھیں وہ بتائیں گے کہ گورنمنٹ کرپٹ ہے ۔ جب اخلاقیات ختم ہوتی ہے تو کرپشن آتی ہے۔ آپ کے پاس اخلاقی قوت ہو گی تو آپ انصاف کرسکیں گے۔ جو قومیں انصاف نہیں کرسکتیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ 1970 کے بعد جتنے بھی الیکشن ہوئے سارے کے سارے متنازع ہوئے۔ جب کوئی پارٹی پاور میں آتی ہے تو وہ اصلاحات نہیں کرتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹ ہونی چاہیے تاکہ سب کو پتا چل جائے کہ کس نےووٹ کس کو ڈالا ہے۔ اس میں ہمارا فائدہ کیسے تھا۔ الیکشن کمیشن کا کام ہے فری اینڈ فیئر الیکشن کروانا مگر وہ اور اپوزیشن ہمارے مطالبےکی نفی کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اگلے الیکشن ای وی ایم مشین کے ذریعے ہوں مگر اپوزیشن اس کے بھی خلاف ہے ۔ اپوزیشن نہیں چاہتی کہ ملک میں فری اینڈ فیئر الیکشن ہو۔









