سانحہ اے پی ایس کو 7 سال مکمل، دہشتگرد اپنے انجام کو پہنچ گئے

ترجمان آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث 9 دہشتگرد کو پاک فوج کے جوانوں نے گن فائٹ میں جنم واصل کیا تھا جبکہ 12 دہشتگردوں کو فوجی عدالتوں سے سزائے موت دی گئی۔

دنیا میں دہشتگردی کے رونما ہونے والے واقعات کی تاریخ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول اپنی نوعیت کا سب سے زیادہ خطرناک واقعہ ہے جس میں دہشتگردوں نے حیوانیت کا پرچار کرتے ہوئے 134 معصوم طالب علموں سمیت 16 اساتذہ کو موت کی نیند سلا دیا۔ پاک فوج کے حکام کا کہنا ہے کہ سانحہ اے پی ایس کے تمام کرداروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاچکا ہے۔

آج سے سات سال قبل یعنی 16 دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان کے دہشتگردوں نے پشاور میں قائم آرمی پبلک اسکول پر خودکار ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کیا ، دہشتگردوں نے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے 150 افراد کو شہید کردیا ، شہید ہونے والے میں 134 طالب علم بھی شامل تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حملے میں 100 کے قریب طلباء زخمی بھی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

پی پی 206 کا ضمنی انتخاب، لوٹے بمقابلہ لوٹے

اوپن مارکیٹ ڈالر اونچی اڑان: بیرونی قرضوں پر مزید 2550 ارب روپے بوجھ بڑھ گیا

کالعدم تحریک طالبان کے دہشتگردوں نے جب حملہ کیا اس وقت آرمی پبلک اسکول میں 1,000 سے زائد عملے کے ارکان اور طلباء موجود تھے۔ بہت سے طالب علم فوجی اہلکاروں کے بچے تھے۔

دہشت گردوں اسکول کے سائٹ والی دیوار کو پھلانگ کے بڑے کمپاؤنڈ تک پہنچے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق، انہوں نے اسکول کے محافظوں کی توجہ کو بٹانے کے لیے اپنی ہی گاڑی کو دھماکے اڑا دیا تھا۔ دہشتگرد وہاں سے مرکزی ہال میں داخل ہوئے جہاں بچے دعا کے لیے جمع ہورہے تھے۔ یہاں پر دہشتگردوں نے نہتے اساتذہ اور بچوں کو اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔

حملہ آور، جو دستی بموں اور خودکار رائفلوں سے لیس تھے، پھر کلاس رومز میں گئے، جہاں انہوں نے اپنی بندوقوں کے نشانوں پر اساتذہ اور بڑے بچوں کو لے لیا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق دہشتگردوں کا مطمع نظر صرف معصوم لوگوں کا مارنا تھا یرغمال بنانا نہیں تھا۔

پاکستانی فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز کچھ وقت میں کمپاؤنڈ میں پہنچے اور انہوں نے دہشتگردوں کو گھیرے میں لے کر کامیاب آپریشن شروع کیا، حملہ  آور دہشتگردوں نے دھماکہ خیز مواد سے لیس خودکش جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔

متعدد دہشتگرد فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے جبکہ کئی حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ حملہ تقریباً آٹھ گھنٹے جاری رہا۔

اس حملے کی ذمہ داری عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔  ملا فضل اللہ کے وفادار ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے اس حملے کو آپریشن ضرب عضب کا ردعمل کرا دیا تھا۔

آپریشن ضرب عضب

پاک فوج نے پاکستان کے شمالی علاقوں کو دہشتگردی اور دہشتگردوں سے پاک کرنے کے لیے 15 جون 2014 کو "آپریشن ضرب عضب” شروع کیا تھا۔

سانحہ اے پی ایس پر دنیا بھر میں مذمت کی گئی تھی جبکہ پاکستان میں چھ سال کی پابندی کے بعد سزائے موت کو بحال کیا گیا تھا اور بہت سے مشتبہ طالبان عسکریت پسندوں کو پھانسی دی گئی تھی۔

پاک فوج نے سانحہ اے پی ایس کے بعد ملک بھر میں آپریشن کو تیز کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو گرفتارکیا۔ جنہیں فوجی عدالتوں سے موت کی سزا کے بعد پھانسی دے دی گئی۔

پاک فوج نے دسمبر 2015 میں انٹیلی جنس بیس آپریشن کرتے ہوئے آرمی پبلک اسکول کے ماسٹر تاج محمد کو گرفتار کیا تھا۔ پاک فوج کا کہنا تھا کہ تاج محمد سانحہ اے پی ایس کے بعد روپوش ہوگیا تھا۔ تاج محمد کو پشاور کے علاقے پاواکا سے ایک مہاجرین کے کیمپ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پاک فوج کے حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں 27 عسکریت پسند ملوث تھے جن میں سے 9 محاصرے کے دوران گن فائٹ میں مارے گئے تھے جبکہ کئی دہشتگردوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

زیر حراست افراد کو فوجی عدالتوں کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے اور دہشت گردی کا الزام ثابت ہونے پر انہیں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

آئی ایس پی آر بریفنگ

سانحہ اے پی ایس پر بریفنگ دیتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہا تھا کہ اسکول پر کالعدم ٹی ٹی پی کے دو گروپس نے حملہ کیا تھا ایک گروپ کی قیادت عتیق الرحمان عرف عثمان کررہا تھا جسے سیکورٹی فورسز نے گرفتار کرلیا تھا۔

27 سالہ تاج محمد آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والے دوسرے گروپ کا کمانڈر تھا۔ دوران تفتیش تاج محمد نے دہشتگردی کی متعدد کارروائیوں کا اعتراف کیا تھا۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ "اے پی ایس حملے میں ملوث گینگ ، 27 دہشت گردوں پر مشتمل تھا، جن میں سے 12 کو پاکستان اور افغانستان سے گرفتار کیا گیا تھا ، 9 مارے گئے جبکہ 6 فرار ہو گئے تھے۔”

متعلقہ تحاریر