ارشد شریف،شاہین صہبائی کی جھوٹی خبروں کو جواز فراہم کرنے پر سی پی این ای پر تنقید

"دی نیوز انٹرنیشنل" کے سابق گروپ ایڈیٹر شاہین صہبائی نے سی پی این ای کی مذمت کرتے ہوئے اسے فراڈ تنظیم قرار دیا ہے۔

سینئر صحافی ارشد شریف اور صحافی شاہین صہبائی نے جھوٹی خبروں کی اشاعت کو جواز فراہم کرنے پر کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ارشد شریف اور شاہین صہبائی نے گلگت بلتستان (جی بی) کے سابق چیف جج رانا شمیم ​​کے توہین عدالت کیس میں کچھ صحافیوں پر فرد جرم عائد کرنے پر "سی پی این ای” کے تحفظات پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ترسیلات زر انٹربینک میں جمع کراؤ، ایک ڈالر پر ایک روپیہ اضافی پاؤ

کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے عہدیداروں نے اپنے 30 دسمبر کے بیان میں رانا شمیم توہین عدالت کیس میں کچھ صحافیوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فرد جرم عائد کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ عہدیداران کا کہنا ہے کہ صحافی کا کام ہوتا ہے کہ جو بھی خبر ہو اس عوام کے سامنے لائے۔ خبر دینے کا مقصد قطعی یہ نہیں ہوتا کہ توہین عدالت مقصود ہے۔

سی پی این ای کے عہدیداروں کا مزید کہنا ہے اس طرح کے اقدامات عالمی سطح پر اظہار رائے کی آزادی کے خلاف تصور کیے جاتے ہیں۔ کونسل نے عدلیہ سے صحافیوں پر فرد جرم عائد کرنے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔

سی پی این ای کے بیان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ارشد شریف نے جھوٹی خبریں شائع کرنے والے صحافیوں کی پشت پناہی کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ "رانا شمیم کے بیان حلفی میں اس جج کا نام لیا گیا نہ تو بینچ کے ممبر تھے اور نہ اس وقت ملک میں موجود جب نواز شریف کو سزا سنائی گئی تھی۔ یہ کیسی صحافت ہے۔”

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ڈان نیوز کے ایڈیٹر ظفر عباس نے لکھا ہے کہ "میری اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست ہے کہ وہ انصار عباسی جیسے کہنا مشق صحافی کے خلاف اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔”

انہوں نے لکھا ہے کہ "جناب، صحافت کوئی جرم نہیں ہے۔ اگر مجھے اس حلف نامے تک رسائی حاصل ہوتی تو میں بالکل وہی کرتا جو انصار نے کیا۔ صحافی کا کام ہے صحیح خبر کو چھپوائے۔”

ڈان نیوز کے ایڈیٹر ظفر عباس کے ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے ارشد شریف نے ٹوئٹر کا سہارا لیتے ہوئے لکھا ہے کہ "بیان حلفی سے متعلق خبر شائع کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج اس وقت ملک میں نہیں تھے۔ اگر "مودی” ایک بیان حلفی شائع کرے کہ "ڈان” اخبار اس کا ہے تو کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کو یہ جھوٹی خبر تسلیم کرلینی چاہیے۔ صحافت حقائق پر مبنی ہونی چاہیے۔”

"دی نیوز انٹرنیشنل” کے سابق گروپ ایڈیٹر شاہین صہبائی نے سی پی این ای کی مذمت کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ "میں کئی سالوں سے ایڈیٹر اور گروپ ایڈیٹر رہ چکا ہوں مگر کبھی فراڈ تنظیم ای پی این ای کا حصہ نہیں رہا۔ اسے اخبارات کے مالکان چلاتے ہیں جو خود ہی ایڈیٹرز بن جاتے ہیں ، اسی طرح اے پی این ایس اور سی پی این ای دونوں مالکان کے حقوق کے رکھوالے ہیں اور کچھ نہیں۔ ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔”

واضح رہے کہ توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حالیہ حکم نامےمیں سابق چیف جج رانا محمد شمیم اور دیگر افراد کے خلاف 7 جنوری کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی آخری وارننگ کے بعد رانا محمد شمیم نے 13 دسمبر کو اپنا اصل حلف نامہ جمع کرایا تھا۔

گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے اپنے بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی ضمانتیں مسترد کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج پر فیصلہ بدلنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

متعلقہ تحاریر