5سال سے انصاف کی مانگ کرتی بیٹی کمرہ عدالت میں انتقال کر گئی

تجزیہ کاروں کا یہ عدل کا نظام اس وقت تک پنپنا نہیں سکتا جب تک قانون امیر اور غریب کے لیے برابر نہیں ہوجاتا۔

پاکستان میں عدل کا نظام اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جہاں بیٹی اپنے والد کی پنشن کی بھیک مانگتے مانگتے ایک دن کمرہ عدالت میں انتقال کرجاتی ہے مگر انصاف کی دہائی دیتا نظام ٹس سے مس نہیں ہوتا ہے۔

پاکستان کی معروف بیرسٹر عمبرین قریشی نے لکھا ہے کہ گذشتہ 5 سالوں سے اپنے والد کی پنشن مانگنے والی خاتون زیب النساء آج عدالت میں انتقال کر گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

سانحہ مری ، کیا پاکستانی قوم اخلاقی پستی کا شکار ہوتی جارہی ہے؟

مری کی اموات کو بھی معاشی اعشاریوں میں شامل کرلیں؟ پی ٹی آئی رہنما

پاکستانی قانون کے مطابق بیوہ کی موت کے بعد صرف غیر شادی شدہ بیٹی ہی اپنے والد کی پنشن کی حقدار ہے۔

عمبرین قریشی نے لکھا ہے کہ یہ اتنا ہی آسان ہے۔ رولز کے مطابق ایسی بیٹی جو بیوہ ہو یا طلاق یافتہ اس کا والد کی پنشن پر حق نہین بنتا ہے۔ لیکن یہ کیس مختلف تھا ، اس لیے یہ بہت افسوس ناک ہے ، عدالت کے پاس اس کی درخواست مسترد کرنے کی معقول وجہ ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔

ماریہ زین نامی خاتون نے لکھا ہے کہ ” بیوہ/طلاق شدہ بیٹی وفاقی حکومت کے قوانین کے مطابق پنشن کی حقدار ہے۔ مجھے پنجاب حکومت کے رول 6 کے بارے میں علم نہیں ہے۔”

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک تو ہمارا عدالتی نظام اصلاحات سے عاری ہے اور محسوس ہی نہیں کیا جاتا کہ کس ادارے کے لیے کیا قوانین ہونے چاہئیں اور کس ادارے کے لیے کون قوانین ہونے چاہئیں ؟ دوسری جانب ملک بھر میں کئی فیشن ایبل لاء فرمز موجود ہیں جو ایسے کیسز کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت پیش پیش رہتے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف پیشہ کمانا ہوتا ۔ ایسی لاء فرمز کو شرم آنے چاہیے جو ان لوگوں کے جذبات اور احساسات کےساتھ کھیلتے ہیں جنہیں قوانین کا علم نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں کا یہ عدل کا نظام اس وقت تک پنپنا نہیں سکتا جب تک قانون امیر اور غریب کے لیے برابر نہیں ہوجاتا۔ ایسے واقعات نظام عدل کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ عدل کو نافذ کیا جائے نظام خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔

متعلقہ تحاریر