کیا انڈیپنڈنٹ اردو کے کارٹونسٹ اور کالم نگارنکالے گئے یا خود گئے ؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ تینوں افراد ایڈیٹوریل بورڈ کی جانب سےدی گئی ہدایت کو مسلسل نظر انداز کرتے رہےہیں

پاکستان میں آزادی اظہارائے کے حوالے سے ہر آدمی ، ہر ادارے اور ہر ایک کی اپنی ہی الگ تشریح ہے ۔ اپنے مفاد کی بات کرنا آزادی اظہار رائے کہلاتا ہے جبکہ اپنے مفاد پر ضرب پڑنے کو آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹے سے تشبیہ دی جاتی ہے ،  پاکستان کے حوالے سے حق آزادی رائے کا سوال آج کل پھر زیر بحث ہے جب ایک صحافتی ادارے نے  نے تین بڑے صحافیوں کو اپنے کے قلم  کی کاٹ کے باعث جہ بتائے  فارغ کردیا ۔

معروف صحافی اور سوشل میڈیا بلاگر عفت حسن رضوی نے گذشتہ روز مائیکربلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں بتایا کہ پاکستان کی معروف نیوز ویب سائٹ  انڈیپینڈنٹ اردو نے ان کا بلاگ شائع کرنے سے انکار کردیا ہے،  اپنے پیغام میں انھو ں نے بتایا کہ "انڈیپنڈنٹ اردو کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر تین برسوں سے ہفتہ وار چھپنے والا میرا کالم مزید جاری نہیں رہ سکتا۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!

یہ بھی پڑھیے

آزادیءِ اظہار رائے کا علمبردار جنگ اخبار سوشل میڈیا کے خلاف برسرپیکار

ایک اور نیوز چینل بند ہوگیا، صحافتی تنظیمیں خاموش

ایسی ہی  صورتحال کا سامنا پاکستان کے معروف صحافی اور  سابق اینکر پرسن طلعت حسین   اور معروف کارٹونسٹ صابر نذر کو بھی کرنا پڑا ہے ، طلعت حسین نے 10 جنوری 2022 کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں  بتایا کہ وہ اب انڈیپنڈنٹ اردو  کےلئے مزید لکھنے  کی  کو جاری نہیں رکھ سکیں گے ۔  طلعت حسین نے  لکھا کہ یہ اس ویب سائٹ (انڈیپنڈنٹ اردو )کے لئے میرا آخری آرٹیکل ہے۔ یہ بھی “مثبت رپورٹنگ” کرانا چاہتے ہیں۔

صابر نذر نے بھی ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں بتایا کہ انڈیپنڈنٹ اردوکی جانب سے ان کو بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اب مزید اپنے کارٹونز انڈیپنڈنٹ اردو میں شائع نہیں کرواسکیں گے۔

 دوسری  جانب نیوز 360 کے ذرائع نے انڈیپنڈنٹ اردو کے حوالے سے بتایا ہے کہ  تینوں  افراد طلعت حسین ، صابر نذراور عفت حسن رضوی ایڈیٹوریل بورڈ کی جانب سےدی گئی ہدایت کو مسلسل نظر انداز کرتے رہیں، تینوں افراد مسلسل ریاستی  اداروں کو حدف تنقید بنائے ہوئے جانبداری کا  مظاہرہ کرتے رہیں جس  کی نشاندہی متعدد مرتبہ کرائی جاچکی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اداریاتی پالیسی کو مسلسل نظر انداز کرنے کے باعث ادارے نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے آخری انتباہ کیا تاہم طلعت حسین ، عفت حسن رضوی اور صابر نذر کی جانب سے  ایک بار پھر اداریاتی پالیسی کو نظر انداز کردیا گیا جس کی بنیاد پر ان کی خدمات سے معذرت کی گئیں ہیں۔

متعلقہ تحاریر