سیاسی بیانیے کو وطن لوٹنے پر ترجیح

حکومتی جماعت اور اُس کے حامیوں نے بھی خوب فائدہ اُٹھایا۔ تقریباً روزانہ ٹی وی پر کسی نا کسی نیوز کانفرنس کے دوران اُنہیں وطن لوٹنے کی دعوت دی جارہی ہے۔

 پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بانی نواز شریف پر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ واپس وطن آکر اپنی والدہ کی تدفین میں شرکت اور مقدمات کا سامنا کریں۔

مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم اورنگزیب اعلان کر چکی ہیں کہ پارٹی کا فیصلہ ہے کہ نواز شریف صاحب وطن نہیں آئیں گے کیونکہ یہاں ”بے رحم‘‘ حکومت قائم ہے۔ نواز شریف کی طبیعت کی خرابی پھر اُن کی اہلیہ اور اب اُن کی والدہ کی وفات۔ یہ تمام واقعات یکجا کر کے دیکھے جائیں تو یقیناً نواز شریف کے لیے ہمدردی ضرور پیدا ہوتی ہے۔

لیکن اگر اِس معاملے میں میرٹ کو دیکھا جائے یا غیرجانبدارانہ طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ نواز شریف کو عدالت نے جیل سے نکال کر ضمانت پر خاص مدت کے لیے علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

سیاست بظاہر پھولوں کی سیج مگر بہت بےرحم

شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی پیرول پر رہائی سیاست کی نذر

نواز شریف نے اِس بات پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ وہ مدت پوری ہونے کے بعد علاج کروا کر وطن لوٹ آئیں گے۔ اب جبکہ اُن کی والدہ کی تدفین ہونی ہے تو یہ وقت بہترین تھا کہ وہ وطن واپس آتے اور اُن کی تدفین کے بعد مقدمات کا سامنا کرتے۔

اِس موقع سے حکومتی جماعت اور اُس کے حامیوں نے بھی خوب فائدہ اُٹھایا اور تقریباً روزانہ ٹی وی پر کسی نا کسی نیوز کانفرنس کے دوران اُنہیں وطن لوٹنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ماں تو سانجھی ہوتی ہے اِس لیے ہم اُنہیں بلا رہے ہیں کہ وہ آئیں اور والدہ کی تدفین میں حصہ لیں۔

بظاہر تو یہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے کیونکہ بیگم شمیم اختر صاحبہ کی زندگی میں کبھی حکومت کے کسی رکن نے اُن کی خریت تک دریافت نہیں کی تھی۔ البتہ اُن کی وفات سے حکومتی اراکین کے دلوں میں اُن کی محبت اُن کے سگے بیٹے سے زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر اب نہیں تو کب؟

نواز شریف کے والد کے انتقال کے وقت وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی وجہ سے وطن نہیں آسکتے تھے۔ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کے انتقال کے وقت وہ اور صاحبزادی مریم نواز قید میں تھے لہٰذا صرف اُن کی تدفین کے لیے پیرول پر رہائی ملی تھی۔

اب جبکہ اُن پر کوئی قدغن نہیں تو اُن کا وطن نا آنا صرف قید سے بچنا سمجھ آتا ہے۔ لیکن اِس کے علاوہ ایک بات اور غور طلب ہے۔ وہ یہ کہ وہ لندن میں رہ کر اپنے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کا پرچار کرسکتے ہیں۔

جو آج سے پہلے اتنی سختی سے کسی سابق وزیراعظم یا ملک کی بڑی جماعت کے رہنما نے نہیں اختیار کیا تھا۔ خود نواز شریف نے بھی اِس سے قبل نامعلوم وجوہات کی بنا پر ذبان بند رکھی ہوئی تھی۔ بظاہر نواز شریف نے اِس بار سیاسی بیانیے کو وطن لوٹنے یا والدہ کی تدفین پر ترجیح دی ہے۔

متعلقہ تحاریر