کوچنگ سینٹرز میں خواتین اساتذہ کیوں نہیں پڑھاتیں؟

حالیہ دور میں کوچنگ سینٹرز درس گاہ سے زیادہ چائے ڈھابے کا منظر پیش کرتے ہیں۔

انسانی شخصیت کی تعمیر اور معاشرتی تربیت میں استاد کا کردار اہم ترین ہوتا ہے۔ ماضی میں استاد کا نام سنتے ہی کسی شفیق خاتون کا خیال ذہن میں آتا تھا۔ لیکن حالیہ دور میں ‘کوچنگ سینٹرز’ نے اس تصور کو ماند کردیا ہے۔

کوچنگ سینٹرز میں مردوں کی اجارہ داری دکھائی دیتی ہے۔ خواتین اس سسٹم سے کہیں دور ہی نظر آتی ہیں۔

نیوز 360 نے اس خصوصی رپورٹ کے حوالے سے مختلف اساتذہ سے گفتگو کی ہے۔ ایک خاتون استاد نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عام طورپرکوچنگ سینٹرز کا ماحول خواتین اساتذہ کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین سینٹرز میں پڑھانا ناپسند کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے اسکولوں میں سینٹرز کے مشہور اساتذہ کو نوکری پر رکھا جاتا ہے۔

کوچنگ سینٹرز کے معروف اساتذہ کے مخصوص گروپس کا ٹرینڈ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ ایک سے دوسری جگہ نوکری تبدیل کرنے پر ٹیچرز باقاعدہ پیکج ڈیل تیار کرتے ہیں۔

اگراردوکا استاد اپنی جاب تبدیل کررہا ہے تو وہ نئے کوچنگ سینٹرکی انتظامیہ سے اپنے ساتھ 2 سے 3 ٹیچرز لانے کی پیکیج ڈیل کرتا ہے۔ کوچنگ سینٹرز مشہورناموں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ساتھ آنے والے دیگراستاتذہ کو بھی ملازمت دینے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔

 نیوز 360 نے کیمبرج یونیورسٹی سے بہترین ٹیچر کا ایوارڈ حاصل کرنے والے استاد احمد سایہ سے بھی گفتگو کی۔ انہوں نے سینٹرز میں مردوں کی اجارہ داری کی 2 وجوہات بتائیں ۔

رات کے اوقات کار

احمد سایہ کے مطابق کوچنگ سینٹرز میں رات کے اوقات کار کے باعث خواتین اساتذہ پڑھانے کو ترجیح نہیں دیتیں۔

دوسری شفٹ میں کام

 یہ بات کسی طور پر جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ خواتین اساتذہ پر گھر کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ دن کے اوقات میں خواتین اسکول یا کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ گھریلو امور کی انجام دہی کی وجہ سے خواتین کوچنگ سینٹرز میں دوسری شفٹ میں کام کرنے کو پسند نہیں کرتیں۔

پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام میں کوچنگ سینٹرز بلاشبہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج کل یہی کوچنگ سینٹرز اندھی کمائی کا ذریعے بنے ہوئے ہیں۔ سینٹرز میں طلباء کے ایڈمیشنز اور دلچسپی کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں وہ کسی طرح بھی درست نہیں۔

 

نیوز 360 کی تحقیق کے مطابق حالیہ دور میں کوچنگ سینٹرز درس گاہ سے زیادہ چائے ڈھابے کا منظر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہانہ تقریبات کا رواج عام ہے۔  قوالی نائٹس تک منعقد کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے ایسے سینٹرز کی فیسیں بھی آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ماہرہ خان اور ثانیہ نشتر 100 بااثر خواتین میں شامل

  استاد احمد سایہ نے اس حوالے سے کہا کہ کوچنگ سینٹرز کا اولین مقصد پڑھائی میں کمزور طلبہ کو آگے لے کر جانا ہے ۔ اگر وہ اس مقصد کو فراموش کرکے صرف اپنے بزنس بڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ کسی طرح درست نہیں۔ تاہم اگر سینٹرز تعلیم پر اپنا فوکس برقرار رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ طلبہ کو غیر نصابی سرگرمیوں کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

متعلقہ تحاریر