پی اے سی میں کیوں طلب کیا؟ سابق چیئرمین نیب اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے

جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے پی اے سی کا یہ اختیار نہیں ہے کہ ان کے خلاف الزامات کی تحقیق کرے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال سابق چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) نے خاتون طیبہ گل کی جانب سے سنگین الزامات کے حوالے سے سینیٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں طلب کئے جانے کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے چیلنج کردیا۔

سابق چیئرمین نیب کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نےان کے خلاف الزامات سامنے آنے پر وزیراعظم سے انہیں لاپتا افراد کمیشن سے برطرف کرنے کے لیے رجوع کیا ہے جبکہ پی اے سی کی جانب سے اس قسم کی ہدایات ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایف آئی اے نے اشتہاری سلیمان شہباز کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کردیں

وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کا معاملہ ، عمران خان کے خلاف قرارداد جمع

درخواست میں کہا گیا کہ پی اے سی کے 7 جولائی کو ہونے والے اجلاس کی کارروائی ، ہدایات و اقدامات کو غیر قانونی ، دائرہ کار سے باہر اور کالعدم قرار دی جائے جبکہ فریقین کو اس صورتحال میں کسی قسم کی کارروائی عمل میں لانے سے  بھی روکا جائے۔

درخواست میں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ، سیکریٹری داخلہ ، سیکریٹری قومی اسمبلی اور سیکریٹری پارلیمانی امور کو فریق بنایا گیا ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں اس سے قبل نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل میجر ریٹائرڈ شہزاد سلیم کو بھی طیبہ گل کی شکایت پر طلب کیا گیا تھا جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے پی اے سی کو ان کے خلاف کسی  بھی کارروائی سے روک دیا تھا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس  میں ایک خاتون طیبہ گل کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ سابق چیئرمین نیب  جسٹس (ر) جاوید اقبال نے انہیں ہراساں کیا ، اس حوالے سے ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ جس پر پی اے سی نے لاپتا افراد کمیشن کے موجودہ چیئرمین اور  سابق چیئرمین نیب کو طلب کیا تھا۔

ہراسگی کا الزام لگانے والی خاتون طیبہ گل نے  پی اے سی اجلاس میں ڈی جی نیب لاہور میجر ریٹائرڈ سلیم شہزاد پر بھی سنگین الزامات عائد کئے تھے جس پر چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ڈی جی نیب میجر ریٹائرڈ سلیم شہزاد کو کمیٹی میں پیش ہونے کے لئے نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

وفاقی حکومت نے سابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال پر طیبہ گل کی جانب سے عائد کیے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے  24 جولائی کو 3 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے چکی ہے۔

متعلقہ تحاریر