توہین عدالت کیس: عدالتوں کی جانب سے ملزمان کو بار بار مواقع دینے کی ایک تاریخ ہے

ماضی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کیس میں سوائس حکام کو خط لکھنے کے لیے تین مواقع فراہم کیے تھے۔

گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو معذرت کا ایک اور موقع دیتے سماعت 7 ستمبر تک ملتوی کردی تھی ، جس کے بعد سے تقریباً تمام مین اسٹریم میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا شوروغوغا مچا ہےکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں جبکہ توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوائس اتھارٹیز کو خط نہ لکھنے پر تین مواقع فراہم کیے تھے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے عمران خان توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس پر چیرمین تحریک انصاف عمران خان کے جمع کرائے گئے گئے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سات روز میں دوبار جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیے

میاں جاوید لطیف اور سینیٹر شوکت ترین کے ایک دوسرے پر غداری کے الزامات

جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ آپ کو جو بھی تحریری جواب دینا ہے سوچ سمجھ کر دیں، آپ کو اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ  ہونا چاہیے۔

دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن نے  وکیل صفائی کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہوسکتی تھی مگر  آپ کا جواب تسلی بخش نہ ہونے کے سبب ایسا نہیں ہوا۔

عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ  سات روز میں سوچ سمجھ کرجواب جمع کرائیں جب کہ عدالت عالیہ نے سینئر وکلاء منیر اے ملک،مخدوم علی خان اور صدر پاکستان بار کونسل کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی۔

عدالتی فیصلے پر مختلف سیاسی رہنماؤں اور سینئر صحافیوں کی کڑی تنقید کی جارہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ عمران خان کو فراہم کردہ ڈھیل اور سہولیات سے اور کچھ ثابت ہو نا ہو نواز شریف اور مسلم لیگ ن سے ہونیوالی ناانصافیاں اور زیادتیاں ایک بار   پھر پوری قوم کے سامنے عیاں ہو گئیں۔ ترازو سیدھا نہیں ہو سکا۔”

سینئر صحافی اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے لکھا ہے کہ ” کیادانیال عزیز، طلال چوہدری، نہال ہاشمی کو دوسرا جواب داخل کروانے کا موقع دیا گیا تھا۔۔۔؟ ان سیاستدانوں نے تو پہلی ہی مرتبہ پر معافی مانگ لی تھی۔ انصاف کی عدالت۔۔۔ یا عدالت کا انصاف۔۔؟ دہرا معیار۔۔؟”

سینئر صحافی مرتضیٰ سولنگی نے لکھا ہے کہ ” نہال ہاشمی نے معافی مانگی اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اسے ایک مہینے کی جیل ہوئی، جرمانہ ہوا اور اسے پانچ سال کیلیے نا اہل بھی کیا گیا۔ #ایک_ملک_دو_معیار۔”

یوسف رضا گیلانی کیس کی مختصر روداد

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق وزیراعظم اور رہنما پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے خلاف توہین عدالت کیس کی شروعات 8 مارچ 2012 سے ہوئی تھی۔

سپریم کورٹ نے سید یوسف رضا گیلانی کو سوائس اتھارٹیز کو خط لکھنے کا حکم دیا تھا کہ سوائس بینکوں میں رکھی ہوئی رہنما پی پی آصف علی زرداری کی دولت کو واپس لانا تھا۔

سپریم کورٹ نے 19 جون 2012 کو توہین  عدالت کیس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے نااہل قرار دے دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ایک مثال تو ہمارے سامنے سید یوسف رضا گیلانی کی ہے جنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان توہین عدالت کیس میں نے 3 مواقع فراہم کیے تھے کہ وہ سوائس اتھارٹیز کو خط لکھ دیں ، اگر عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کو ایک موقع دے دیا تو کون سا گناہ عظیم کردیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ایسا کون سا کام کردیا ، جس پر لفافی صحافی سارے تلملا رہے ہیں ، یہ وہ صحافی ہیں جنہیں اس ملک میں جمہوریت بہت زیادہ عزیز ہے اپنی برانڈ کی۔

متعلقہ تحاریر