وزیراعلیٰ پنجاب کا نوٹس بےاثر، عمران خان پر حملہ آور ملزم کا دوسرا بیان بھی باہر آگیا

وزیراعلیٰ پنجاب نے گزشتہ روز حملہ آور کا پہلا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ تھانے کے تمام عملے کو معطل کردیا تھا، اہلکاروں کے موبائل قبضے میں لیکر فرانزک کیلیے بھجوادیے گئے تھے، نئے وڈیو بیان نے پرویز الٰہی کیلیے سنجیدہ سوالات کھڑے کردیے

وزیرآباد میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم کا دوسرا بیان بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہٰی نے گزشتہ روز حملہ آور کا پہلا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ تھانے کے تمام عملے کو معطل کردیا تھا اور تمام اہلکاروں کے موبائل قبضے میں لیکر فرانزک کیلیے بھجوانے کا دعویٰ کیا تھا تاہم تحقیقات سے قبل ہی حملہ آور کا دوسرا بیان وائرل ہوگیا جس پر پرویزالٰہی کیلیے سنجیدہ سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کا قاتلانہ حملے کے باوجود جھکنے سے انکار، آج پھر لانگ مارچ کا اعلان

وزیرآباد:پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں فائرنگ ، عمران خان سمیت 5 افراد زخمی

حملہ آور کے نئے بیان کی دو حصوں پر مشمتل   ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں  جن میں وہ وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران پاکستان تحریک انصاف   کے سربراہ عمران خان پر حملے کی وجہ بتارہا ہے۔

نئی ویڈیو میں حملہ آور نے  تفتیش کار سے گفتگومیں کہا کہ وہ عمران خان پر حملہ کرنے میں کوئی جرم محسوس نہیں کر رہا اوراسے پی ٹی آئی چیئرمین کو قتل نہ کرنے پرافسوس ہے۔

عمران خان پر قاتلانہ حملے  کی وجہ بتاتے ہوئے حملہ آور نے الزام عائدکیا کہ عمران خان نبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ایک نبی کی طرح قوم تک اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ حملہ آور نے کہا کہ وہ ختم نبوت پر یقین رکھتا ہے اور اسکا ضمیر اسے عمران خان کو نبی کی طرح کام کرتے ہوئے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔

نئے بیان کے دوسرے حصے میں حملہ آور نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر اسرار احمدکو سنتا ہے۔ تفتیش کار نے حملہ آور سے اسکے موبائل سے سعد رضوی اور خادم حسین رضوی مرحوم کی بہت زیادہ وڈیوز ملنے سے متعلق سوال کیا تو ملزم نے کہاکہ  جو چیز اچھی لگتی ہے وہ شیئر کردیتا ہوں،سوشل میڈیا ایسا ہی ہے۔

ملزم نے مزید بتایا کہ حملے میں استعمال ہونے والا پستول اس نے وزیرآباد سے وقاص نامی لڑکے  کے ذریعے بٹ نامی شخص سے  20 ہزار روپے   خریدا تھا،ملزم نے بتایا کہ اس کے پستول میں 26 گولیاں تھیں جن میں سے 7 سے 8 اس نے چلائی ہیں جبکہ ایک گولی پستول میں پھنسی ہوئی تھی۔

تفتیش کار کے سوال پر ملزم نے بتایا کہ اس کا ہدف صرف عمران خان تھے،کسی اور کو نقصان پہنچانا اس کا مقصد نہیں تھا،اس نے کنٹینر پر سیدھا عمران خان کیجانب فائرنگ کی ۔

تفتیش کار کے استفسار پر ملزم نے بتایا کہ کنٹینر پر کھڑے محافظ نے اس پر 3سے  5 فائر کیے تھے تاہم وہ محفوظ رہا لیکن ساتھ کھڑے شخص کو گولیاں لگی تھیں۔

اس قبل گزشتہ  روز بھی ملزم کا وڈیو بیان سامنے آیا تھا،پہلے ویڈیو بیان میں حملہ آور نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ عمران خان کو عوام کو گمراہ کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ ملزم نے مزید کہا کہ عمران خان کو اس وقت قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جب انہوں نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا۔ اس نے عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش کا اعتراف کیا۔

حملہ آور کا کہنا تھا کہ وہ اکیلا کام کر رہا تھا اور اس حملے کے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں تھا۔ وہ موٹرسائیکل پر لانگ مارچ کے مقام پر آیا جب اس نے اپنے ماموں کی دکان کے باہر پارک کیا۔

ملزم کا پہلا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ تھانے کے تمام عملے کو معطل کردیا تھا اور آئی جی پنجاب پولیس کو متعلقہ تھانے کے اہلکاروں کیخلاف سخت کارروائی کا حکم دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ تھانے کے اہلکاروں کے موبائل فون بھی قبضے میں لے لیے گئے ہیں جنہیں فرانزک آڈٹ کے لیے بھیجا جائے گا۔

تاہم پہلے بیان کی تحقیقات سے قبل ہی نئی وڈیو سامنے آنے پر سنگین سوالات اٹھ گئے۔تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہےکہ وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو ان سوالات کا جواب دینا ہوگاکہ ملزم پنجاب پولیس کی تحویل میں ہے تو اس  کے بیانات کیسے سامنے آرہےہیں؟ان بیان کو جاری کرنے کا مقصد کیا ہے کیونکہ قانون کی عدالت میں ان بیانات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔  انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے کہا کہ وہ ویڈیو بیانات لیک کرنے والوں کے بارے میں اپنا موقف واضح کریں۔

متعلقہ تحاریر