190 ملین پاؤنڈ کا معاملہ: نیب نے بزنس ٹائیکون ملک ریاض کو طلب کرلیا

نیب حکام نے ملک ریاض حسین یکم دسمبر کو صبح 11 بجے نیب کی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے لیے خط لکھ دیا۔

عمران خان کے دور حکومت میں کرپشن کے تانے بانے بننے کے لیے نیشنل اکاؤنٹی بیلیٹی بیورو (نیب) حکام نے برطانیہ سے پاکستان منتقل ہونے والے فنڈز میں خردبرد کے کیس میں پاکستان کے معروف بزنس ٹائیکون ملک ریاض حسین کو طلب کرلیا ہے۔

ملک ریاض حسین کو یکم دسمبر کو صبح 11 بجے وفاقی دارالحکومت میں نیب کے دفاتر میں قومی احتساب بیورو کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وزیراعظم شہباز شریف ترکیہ میں دونمبری کرتےرنگے ہاتھوں پکڑے گئے

اسلام آباد کی مقامی عدالت سے سینیٹر اعظم سواتی کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

نیب نے حکومتی ایما پر 2019 میں مبینہ طور پر برطانیہ سے پاکستان منتقل ہونے والے فنڈز کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف رشوت ستانی، بدعنوانی اور کک بیکس کے الزامات کو شامل کیا گیا ہے۔

NAB, UK, Malik Riaz, Pakistan

معاملہ کیا ہے؟

2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 190 ملین پاؤنڈ مالیت کے تصفیے پر اتفاق کیا تھا۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسینے عدالت سے باہر کیس کا تصفیہ کرتے ہوئے ملک ریاض اینڈ فیملی کو 190 ملین پاؤنڈ ادا کیے تھے۔

NCA برطانیہ میں قانون نافذ کرنے والی ایک قومی ایجنسی ہے جو منی لانڈرنگ اور برطانیہ اور بیرون ملک مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی غیر قانونی رقوم کی تحقیقات کرتی ہے۔ اگر NCA برطانیہ سے باہر کسی کیس کی تحقیقات کر رہا ہے، تو وہ چوری شدہ رقم متاثرہ ریاست کو واپس کر دیتا ہے۔ لہذا اگر ایجنسی پاکستان میں دھوکہ دہی یا منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرتی ہے تو تصفیہ کی رقم پاکستانی حکومت کو واپس کرے گی۔

ملک ریاض کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ ان کے خاندان کو این سی اے کی تحقیقات کے نتیجے میں 190 ملین پاؤنڈ مل گئے تھے جو پاکستانی خزانے میں جمع ہونے تھے ، تاہم ، یہ معاملہ سابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی وجہ سے الجھ گیا تھا۔

5 دسمبر 2019 کو، شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ 190 ملین پاؤنڈ پاکستان کے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں واپس بھیجے گئے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم کیسے منتقل کی جا سکتی ہے؟، تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے سوال کو ٹال دیا کہ حکومت ، این سی اے اور ملک ریاض کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا اس لیے اس پر زیادہ بات نہیں کی جاسکتی۔

تو پیسے کا کیا ہوا؟

یہ وہ مقام ہے جہاں معاملہ واقعی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ بنیادی طور پر الزام یہ ہے کہ ملک ریاض کی جانب سے شہزاد اکبر کی مداخلت کے بعد این سی اے سے ملنے والے پیسے سیدھے پراپرٹی ٹائیکون کے بینک اکاؤنٹ میں چلے گئے۔

نیب کا مؤقف ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی ملکیت 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض کو ہی واپس مل گئے، وفاقی کابینہ نے اس وقت معاملے کو حساس قراردے کرمتعلقہ ریکارڈ دوبارہ طلب کرتے ہوئے کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

اور اس حوالے سے نیب نے تازہ ترین کارروائی کرتے ہوئے ملک ریاض کو طلبی کا خط لکھ دیا ہے۔

متعلقہ تحاریر