صدر مملکت اور وزیراعظم سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی الوداعی ملاقاتیں

صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف خدمات کو سراہا اور شاندار خراج تحسین پیش کیا۔

پیر کے روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف اور وزیراعظم شہباز شریف سے الگ الگ الوداعی ملاقاتیں۔ صدر مملکت اور اور وزیراعظم نے آرمی چیف کی سیکورٹی اور ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ان خدمات کو سراہا۔

29 نومبر کو سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریٹائرمنٹ سے ٹھیک ایک روز قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ایوان صدر میں الوداعی ملاقات کی۔

یہ بھی پڑھیے

فوج کو غیرسیاسی کرنے کا فیصلہ جمہوری کلچر میں نئی روح پھونکے گا، آرمی چیف

ملاقات کے موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دفاعی شعبے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی خدمات کو سراہا۔ صدر مملکت نے آرمی چیف کی ملک اور افواج پاکستان کے لیے بھی ان کی خدمات کو سراہا۔

صدر مملکت عارف علوی نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

بعدازاں وزیراعظم شہباز سے الوداعی ملاقات کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملک کے لیے خاص طور پر دفاع ، سیکورٹی اور جیو اکنامکس کے شعبوں میں خدمات کو سراہا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کی سرزمین سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے میں فوج اور آرمی چیف کے کردار کو سراہا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آپ کی قیادت میں فوج نے ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کی گرے لسٹ سے ملک کو نکالنے ، COVID-19 کی وبا اور حالیہ سیلاب سمیت مختلف چیلنجز سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے مثالی خدمات انجام دیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی اور سرکاری ذمہ داریاں نبھانے میں حکومت کے تعاون پر وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو 29 نومبر 2016 کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ آرمی چیف کے طور پر تین سال کی اپنی پہلی مدت پوری ہونے کے بعد، پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے، جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف مدت ملازمت نومبر 2019 سے نومبر 2022 تک مزید تین سال کے لیے بڑھا دی گئی تھی۔

متعلقہ تحاریر