عمران خان کے الزامات پر جنرل (ر) قمر باجوہ کا وضاحتی بیان بزبان منصور علی خان

خانہ کعبہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں کلثوم نواز کے انتقال کے بعد نوازشریف سے ملاقات نہیں ہوئی، عمران خان کے حوالے سے ادارے کی رائے غلط نکلی، پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما عثمان بزدار کو ہٹوانے کا کہتے تھے،پہلی ایکسٹینشن کا ٹی وی سے پتہ چلا،پرویز خٹک نے آئی ایس آئی کے دفتر سے فون کرکے دوسری ایکسٹیشن کی پیشکش کی، سابق آرمی چیف کے ذرائع کادعویٰ

سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عائد کردہ الزامات پر سینئر اینکرمنصور علی خان کے توسط سے وضاحتی بیان جاری کردیا۔

منصور علی خان نے جنرل(ر) قمر جاویدباجوہ انتہائی قریبی ذرائع کے حوالے سے ان کا موقف اپنے وی لاگ میں بیان کیا ہے۔ منصور علی خان نےدعویٰ کیاہےکہ اس گفتگو کوایسے سمجھیں جیسے جنرل رقمر باجوہ خود ساری باتیں کررہےہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان تمام باتوں کی صداقت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیے

قتل کے ڈیڑھ ماہ بعد سپریم کورٹ کا سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کا ازخود نوٹس

توشہ خانہ تحائف پر جیو نیوز نیٹ ورک کا پروگرام ، عمران خان برطانوی عدالت پہنچ گئے

منصور علی خان نے اپنے وی لاگ کی ابتدامیں بتایا کہ سابق آرمی چیف  سے سوال کیا گیا کہ آرمی چیف بننے کے بعد نوازشریف سے تعلقات خراب ہونے کی وجہ کیا بنی تو ذرائع نے بتایا کہ  بطور  ادارہ ذہن میں یہ بات آچکی تھی کہ عمران خان اس ملک کو بچائے گا اور عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جس سے امید لگائی جاسکتی ہے اور نوازشریف اور ان کے خاندان کے کیس کو ہم نے عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑدیا تھا ، اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔نوازشریف نے سب کچھ خود فیس کرنا تھا لیکن نوازشریف کے ساتھ ایک عزت کا رشتہ تھا،شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ایک سال بہت اچھا تعلق رہا۔

منصور علی خان کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق آرمی چیف خانہ کعبہ میں جاکر قسم کھانے کیلیے تیار ہیں کہ ان کی نوازشریف سے گفتگو کلثوم نواز کی وفات پر 4 سال پہلے ہوئی تھی۔

عمران خان سے متعلق غلط رائے قائم ہوگئی تھی، انکے دعوے غلط نکلے

منصور علی خان نے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا کہ عمران خان سے متعلق غلط رائے قائم ہوگئی تھی ان کے پاس ٹیم تیار ہے اور چٹکی بجاتے ہی سارے مسائل حل ہوجائیں گے، وقت گزرنے کیساتھ پتہ چلا دعوے غلط تھے۔

منصور علی خان کے مطابق جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ کے ذرائع نے مزید بتایا کہ 2018 الیکشن کے حوالےسے عمران خان کیلیے بہت اچھے جذبات تھے، ادارے  کے اندر بھی عمران خان کے حوالے سے مثبت تاثر پایاجاتا تھا کہ اگر یہ کامیاب ہوجائیں گے تو بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔

پی ٹی آئی کے سینئر لوگ بزدار کو ہٹوانے کا مطالبہ کرتے تھے

اینکرپرس کے مطابق ذرائع کاکہنا ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے بتایا کہ انہیں عثمان  بزدار کا بتایا گیا تو انہوں نے یہی کہا کہ یہ کون ہے کسے وزیراعلیٰ بنایا جارہا ہے۔  پی ٹی آئی کے بڑے بڑے سینئر لوگ خود جاکر کہتےتھے بزدار کو ہٹوائیں اور یہ بھی کہتے تھے کہ عمران خان کے سامنے میرا نام نہیں لیجیے گا ورنہ عمران خان کی طرف سے بیک لیش آجائے گا۔

عمران خان کے بیانات سے سعودی عرب سے تعلقات خراب ہوئے

عالمی معاملات کے بارے میں بات کرتے ہوئے منصور علی خان نے سابق آرمی چیف کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ریکوڈک کے معاملے جنرل (ر) باجوہ نے بڑا کردار ادا کیا، مشرق وسطیٰ کے معاملات خاص طور پر عمران خان کے دور میں سعودی عرب سے تعلقات بہت خراب ہوئے، خاص کر وہ بیانات جو انہوں نے ترکی میں جاکر دیے جس سے سعودی عرب سے تعلقات خراب ہوئے۔ منصور علی خان نے بتایا کہ چین کے صدر نے عمران خان کے بارے میں جو بات کہی وہ وی لاگ میں بتائی نہیں جاسکتی۔

عمران خان عالمی رہنماؤں سے ملاقات کو ذاتی انٹریکشن میں لے جاتے تھے

ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ رائے پائی جاتی ہے کہ عمران خان کو یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ جب عالمی پلیٹ فارم پر وہ  کسی بھی دوسرے ملک کے رہنما سے بات چیت کرتے ہیں  تو عمران خان اور وہ لیڈر ذاتی طور پر کوئی بات نہیں کررہے ہوتے، آپ ریاست پاکستان کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں لیکن اس چیز کی کمی محسوس کی جاتی تھی کہ عمران خان اس ملاقات کو ذاتی انٹرکشن میں لے جاتے تھے جیسے وہ کنٹینر میں پی ٹی آئی کے لوگوں سے ملتے ہیں، آپ کو پاکستان کی نیک نامی کا خیال کرنا چاہیے۔

منصور علی خان نے سابق آرمی چیف کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان عمران خان سے کئی باتوں کی وجہ سے ناراض ضرورتھے لیکن انہوں نے اپنا طیارہ واپس نہیں بلایا تھا وہ جہاز واقعی خراب ہواتھا۔

عمران خان شروع میں جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ  کو باس کہتے تھے

اینکر پرسن نے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ” عمران خان شروع میں جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ  کو باس کہتے تھے، انہوں  نے کہا، یہ اچھا نہیں لگتا ٹیکنیکلی آپ میرے باس ہیں،عمران خان نے کہا ہم پارٹنرز ہیں جس پر سابق آرمی چیف نے انہیں کہا کہ ہم پارٹنرز نہیں ہیں، آپ بطور وزیراعظم میرے باس ہیں، برائے مہربانی یہ لفظ استعمال نہ کیا کریں“۔

ہر کام ادارے سے کروانا عمران خان کی عادت بن گئی تھی 

منصورعلی خان کے مطابق انہوں نے سوال کیا کہ ادارہ عمران خان کے سحرسے کب نکلا تو انہیں بتایا گیا کہ عمران خان کی عادت بن گئی تھی کہ وہ ہر کام ادارے سے کرواتے تھے، بندے اکٹھے کرکے دیں، یہ کرکے دیں وہ کرکے دیں اور جیسی ان کی پرفارمنس تھی اس کا سارا نزلہ ادارے پر گررہا تھا کہ، ادارہ انہیں پال پوس رہا ہے، ادارہ ان کیلیے سب کچھ کررہا ہے۔

26 میں سے 20 کورکمانڈرز نے عمران خان سے پل آؤٹ کرنے کا مشورہ دیا

منصور علی خان کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ ایک کور کمانڈرز کانفرنس میں 26 میں سے 20 کور کمانڈرز نے کہا ہمیں عمران سے پل آوٹ کرنا چاہیے، 6 ایسے تھے جو کہہ رہے تھے سپورٹ کرنا چاہیے، وقت گزرنے کیساتھ 6 نے بھی کہا ہمیں پیچھے ہٹنا ہوگا،مارچ 2021 میں جنرل باجوہ نے باقاعدہ طور پر عمران خان کو بتا دیا تھا کہ اب آپ کو ہماری سپورٹ نہیں ملے گی لیکن اس موقع پر عمران خان نے قومی مفاد میں تین چیزوں ای وی ایم، بجٹ کی منظوری اور  ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے معاملے میں ادارے سے تعاون کا مطالبہ کیا اور اس سلسلے میں ادارہ جتنی مدد کرسکتا تھا کی گئی۔

ایکسٹینشن کے معاملے پر بات کرتے ہوئے منصور علی خان نے سابق آرمی چیف کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ مئی 2021 میں جنرل باجوہ نے عمران خان کو بتادیا تھا کہ اگر جنرل فیض کو آرمی چیف بنانا ہے تو پھر کور کمانڈ کرانی پڑے گی، عمران خان نے کہا اگلے مہینے کرتے ہیں، ایک ماہ بعد دوبارہ پوچھا گیا تو پھر کہا اگلے مہینے کرتے ہیں۔

منصور علی خان کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ تیسری مرتبہ جنرل فیض نے خود کہا کہ جا کر عمران خان سے بات کریں کہ کور کمانڈ کرنا ضروری ہے، واپس آیا تو وزیراعظم ہاوس سے فون آگیا کہ آپ نے جو فیصلہ کیا وہ درست ہے۔

جب ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کو لگا دیا گیا تو تحریک انصاف سے آواز اٹھنے لگی یہ غلط کیا،معاملات اس حد تک خراب ہوگئے کہ اعظم خان کو فون کرکے کہا کہ وزیراعظم کو کہہ دیں آج میرا بطور آرمی چیف آخری دن ہے، جس پر اعظم خان نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ مانڑا ایسا نہ کرنا ہم سب مرے جائیں گے، پھر جنرل فیض اور دیگر کمانڈرز نے اسی رات جنرل باجوہ سے ملاقات کرکے کہا کہ آپ نے یہ کام نہیں کرنا جس کے بعد یہ کام واپس لے لیا گیا۔

ہمیں پنجاب پولیس کی طرح آپریٹ مت کرائیں ، پاکستان آرمی کا ایک ڈسپلن ہے

منصور علی خان کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے بعد میں اسد عمر، پرویز خٹک اور فواد چوہدری کے ذریعے جنرل(ر) قمر باجوہ کی بنی گالا میں عمران خان سے ملاقات کرائی گئی جس میں عمران نے تجویز دی کہ آئی آیس آئی کو کور کا درجہ دے دیں جس پر سابق آرمی چیف نے عمران خان کو کہا کہ ہمیں پنجاب پولیس کی طرح آپریٹ مت کرائیں ، پاکستان آرمی کا ایک ڈسپلن ہے۔

جنرل (ر) باجوہ کو پہلی ایکسٹینشن کا علم نہیں تھا

منصور علی خان کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ انہیں پہلی ایکسٹینشن کا علم ہی نہیں تھا، انہیں ٹی وی کے ذریعے پہلی ایکسٹینشن کا پتہ چلا، دوسری ایکسٹینشن پر اسد عمر نےمجھے فون کیا اور کہا کہ آپ 2 سال کیلئے ایکسٹینشن لے لیں، تین سے چار دن بعد پرویز خٹک نے فون پر بات کی تو سابق آرمی چیف نے انہیں کہا کہ آئی ایس آئی کے دفتر جائیں وہاں سے سیکیور لائن کے ذریعے کال کریں۔

پرویز خٹک نے آئی ایس آئی کے دفتر سے فون کرکے دوسری ایکسٹیشن کی پیشکش کی

آئی ایس آئی کے دفتر سے پرویز خٹک نے جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ سے فون پر بات کی، وہاں ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی موجود تھے، تاثر یہ تھا کہ تاحیات ایکسٹیشن دینا چاہتے ہیں، وہاں بھی دو سال کی ایکسٹیشن کی بات ہوئی۔ جس پر جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے ایکسٹینشن لینے سے انکار کردیا۔

متعلقہ تحاریر