نیب ترامیم کیس: سپریم کورٹ نے عمران خان کے وکیل سے دو سوالات پر وضاحت طلب کرلی

عدالت کو بتایا جائے کہ افواجِ پاکستان کو نیب قانون سے باہر رکھنے کی وجوہات کیا ہیں؟۔ سپریم کورٹ کا خواجہ حارث سے سوال۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست کی سماعت میں دریافت کیا ہے کہ افواجِ پاکستان کو نیب قانون سے باہر رکھنا پی ٹی آئی کی نظر میں آئینی ہے یا غیر آئینی؟ جب کہ نیب قانون سے ججز بھی باہر نہیں۔

عدالت نے دریافت کیا کہ منتخب رکن پارلیمان سے نکل کر سڑکوں پر فیصلہ کرنے کا کہے تو کیا یہ جمہوریت ہے؟۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ نے نیب قوانین میں ترمیم کے خلاف عمران خان کی دائر کردہ  درخواست کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیے

یقین رکھیں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے، وزیراعظم شہباز شریف

اعظم سواتی کو گرفتار نہ کرنے کے احکامات، آئی جی سندھ ججز پر بھڑک اٹھے

عمران خان کی جانب سے وکیل خواجہ حارث پیش ہوئے، سپریم کورٹ نے عمران خان کے وکیل سے 2 سوالات پر وضاحت مانگ لی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایک شخص کو لاکھوں افراد ووٹ کے ذریعے رکنِ پارلیمان منتخب کرتے ہیں اور وہ پارلیمنٹ سے نکل کر کہتا ہے کہ فیصلہ سڑکوں پر کروں گا تو کیا یہ جمہوریت ہے؟۔

عدالت عظمیٰ نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ آپ نے دلائل میں کہا کہ رکنِ پارلیمنٹ عوامی اعتماد کا امانت دار ہے۔ منتخب ارکان کے پارلیمان چھوڑ کر سڑکوں پر فیصلے کرنے سے جمہوری نظام کیسے چلے گا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو چاہیے کہ وہ پارلیمان میں بیٹھیں۔

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے دریافت کیا کہ افواجِ پاکستان کو نیب کی دسترس سے باہر رکھا گیا ہے جب کہ نیب قانون کی دسترس سے تو ججز بھی باہر نہیں ہیں، اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟

عدالت کو بتایا جائے کہ افواجِ پاکستان کو نیب قانون سے باہر رکھنے کی وجوہات کیا ہیں؟۔

عدالت عظمٰی نے کہاکہ نیب قانون سے افواجِ پاکستان کو باہر رکھنے کا یہ عمل پی ٹی آئی کی نظر میں آئینی ہے یا غیر آئینی؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ نیب قانون میں بہت سے سقم بھی تھے ، نیب قانون میں کسی شخص کو محض الزام پر 90 روز کیلئے گرفتار کرلیا جاتا تھا،سب ترامیم ملکی قانون میں پیشرفت ہیں ، نیب قانون پر ترامیم سے پہلے بہت تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ نیب سمیت کسی بھی فوجداری مقدمے میں تحقیقات کے دوران گرفتاری کا حامی نہیں ہوں، اچھے سے اچھے قانون پر بھی عمل کرنیوالے نہ ہوں تو وہ بے وقعت ہوتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ پارلیمنٹ کی نیت جاننے کیلئے نیب ترمیم پر جو بحث ہوئی وہ دیکھنا ہوگی۔

وکیل عمران خان نے کہاکہ نیب قانون میں کوئی ترمیم عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر نہیں ہوئی۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف ایکسٹینشن کیس میں قانونی خلا کو پر کیا تھا، اسفند یار ولی کیس میں بھی سپریم کورٹ نے ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ’ اسفند یار ولی کیس میں عدالت نے انسانی حقوق سے منافی ہونے پر قانون کالعدم قرار دیا تھا، نیب ترامیم کیس میں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ جو مسنگ ہے اس کو شامل کیا جائے۔‘

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے جو شقیں نکالی گئیں ان سے قانون ہی غیر موثر ہو گیا، نیب ترامیم کے خلاف اس مقدمے میں نیب قانون اصل حالت میں بحال کرنے کا کہا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم کے خلاف پبلک بھی کچھ کہہ رہی ہے۔ یا پھر عدالت خود سے تعین کرے کہ نیب ترامیم سے عوام متاثر ہو رہی ہے۔‘

اس موقعے پر چیف جسٹس کا کہنا تھا ’درشن مسیح کیس میں پبلک نے عدالت سے رجوع کیا تھا، کیا نیب ترامیم کیس میں پبلک نے عدالت سے رجوع کیا ہے؟‘

وکیل خواجہ حارث نے کہا ’درشن مسیح کیس میں این جی اوز نے عدالت سے رجوع کیا تھا، خواہش ہے کہ کرپشن کے خلاف بھی این جی اوز بن جائیں۔‘

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب ترامیم کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواست زیر التوا ہے، یہ بھی بتائیں کہ نیب ترامیم کے خلاف کیس واپس ہائیکورٹ کیوں نہیں بھیجوایا جاسکتا؟۔

عدالت عظمٰی نے نیب ترمیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

متعلقہ تحاریر