نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترامیم کرنے والوں کو ہی ہوا، سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم کو بغیر بحث جلد بازی میں منظور کیا گیا، ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے کچھ اور جاننے کی ضرورت ہی نہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترامیم کرنے والوں کو ہی ہوا، چند افراد کی دی گئی لائن پر پوری سیاسی پارٹی چل رہی ہوتی ہے، ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر تماشا دیکھے؟ نیب ترامیم اُس اسمبلی نے کیں جو مکمل ہی نہیں۔ نیب قانون کے مطابق آرمی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عہدہ لیں تب بھی سوال نہیں ہو سکتا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی حکمت عملی کے باعث آدھی سے زیادہ اسمبلی نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ نیب ترامیم اس اسمبلی نے کیں جو مکمل ہی نہیں، اس نکتے پر کوئی قانون نہیں ملا کہ نامکمل اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری ایک بار پھر7 روزہ طویل دورے پر امریکا جائیں گے

منی لانڈرنگ کیس کے ملزم سلیمان شہباز کی 14 روزہ حفاظتی ضمانت منظور

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو اپنا کام نہ کرے تو لوگ عدالتوں کے پاس ہی آتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا ہے، چند افراد کی دی گئی لائن پر پوری سیاسی پارٹی چل رہی ہوتی ہے، لائن فالو کرنے سے فائدہ صرف چند افراد کی ذات کو پہنچتا ہے، نیب ترامیم کی ہدایت کرنے والوں کو اصل میں فائدہ پہنچا، کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ پیرباندھ کر تماشا دیکھے؟ نیب ترامیم کو بغیر بحث جلد بازی میں منظور کیا گیا، ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے کچھ اور جاننے کی ضرورت ہی نہیں۔

عدالت عظمٰی نے کہا کہ نیب قانون کے غلط استعمال سے کتنے لوگوں کے کاروبار تباہ ہوچکے ہیں، کرپشن پر کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ خود کو فائدہ پہنچانے کی قانون سازی کے لیے ’ریگولیٹری کیپچر‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کرپشن غلط ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن ہونی نہیں چاہیے، سوال یہ ہے کرپشن کا سدباب کسے اور کیسے کرنا ہے؟۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون کا اطلاق افواج پاکستان پر نہیں ہوتا، فورسز کے ان افسران پر نیب قانون لاگو ہوتا ہے جو کسی سول ادارے میں تعینات ہوں، نیب قانون کا اطلاق عدلیہ پر بھی نہیں ہوتا۔

جسٹس  منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج کے خلاف آئینی درخواست تعیناتی یا تبادلے کے معاملے میں نہیں ہو سکتی، فیصلے میں انفرادی کرپشن پر کسی فوجی افسر کو چھوڑنے کا کہیں ذکر نہیں، سپریم کورٹ نے فیصلہ 2001 میں دیا تھا تب حکومت کس کی تھی؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فوج کو استثنیٰ دینا سمجھ سے بالاتر ہے، فوج کے خلاف بات نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ کرپشن پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔ آرٹیکل 25 مساوات کی بات کرتا ہے، کسی کے ساتھ جانبداری نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون کے مطابق آرمی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عہدہ لیں تب بھی سوال نہیں ہو سکتا، عدالت کو اس سوال پر اپنے دلائل دیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل بروز بدھ تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ تحاریر