پنجاب الیکشن نظرثانی کیس؛ پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن پر نظریہ ضرورت زندہ کرنے کا الزام
سپریم کورٹ میں پنجاب الیکشن نظر ثانی کیس میں پی ٹی آئی نے اپنا تحریری جواب جمع کروادیا جس میں انہوں نے الیکشن کمیشن پر الزام عائد کیا کہ وہ نظریہ ضرورت دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہے ،عدالت ای سی پی کی درخواست مسترد کردے
پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں پنجاب میں عام انتخابات سے متعلق کیس میں اپنا جواب جمع کروایا جس میں الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) نے عدالت میں اپنے تحریری جواب میں کہا ہے کہ آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے جبکہ آئین یہ بھی نہیں کہتا کہ پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے
لیک آڈیوز پر کمیشن کیلئے چیف جسٹس بندیال کی اجازت کی ضرورت نہیں، نذیر تارڑ
پی ٹی آئی نے اپنے جواب میں موقف اختیار کیا کہ عدالت عظمیٰ نےالیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جبکہ الیکشن کمیشن نظریہ ضرورت کو زندہ کرنا چاہتا ہے جسے دفن کردیا گیا ہے ۔
سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ نوے روز میں الیکشن آئینی تقاضہ ہے۔ آرٹیکل 218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
سپریم کورٹ میں پنجاب میں عام انتخابات کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے اپنے دلائل میں کہا کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جاسکتا ہے۔
ای سی پی کے وکیل کے مطابق نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار دیوانی اور فوج داری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کا دائرہ کار کمی نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیے
عمران خان کی 8 مقدمات میں 8 جون تک عبوری ضمانت میں توسیع منظور
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہوکر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔
جسٹس منیب اخترنے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے کروڑوں عوام کے حقوق انتخابات سے جڑے ہیں، مفاد عامہ آپ فرق نہیں کر پا رہے، آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟ ہم سمجھ نہیں پا رہے۔
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ عدالت کو نظرثانی میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہے، نظرثانی میں ضابطہ کی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہیے، آئینی مقدمات میں نیا نکتہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ الیکشن کمیشن اور حکومت اس کارروائی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، ماضی میں حکومت بینچ پر اعتراضات کرتی رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی فل کورٹ کبھی چار تین کا نکتہ اٹھایا گیا،جوباتیں آپ نے لکھ کر دی ہیں وہ پہلے کیوں نہیں کی گئیں؟ کیا کسی اور الیکشن کمیشن کو یہ مؤقف اپنانے پر مجبور کیا ہے؟
یہ بھی پڑھیے
برطانوی اشاعتی ادارے ‘دی گارڈین’کا افواج پاکستان کو واپس بیرکوں میں جانے کا مشورہ
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ پہلے یہ نکات نہ اٹھانے کی وجوہات بھی بتاؤں گا،عدالت اگر4اپریل کے اس فیصلےکی تفصیلی وجوہات دے تو ہمیں بھی آسانی ہو جائےگی۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ تفصیلی وجوہات عدالت دے گی لیکن جو سوال نظرثانی کے اختیار پر اٹھایا ہے اس سے آپ کے لیے دلائل کا گیٹ وے کھل جائےگا ۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے4اپریل کو حکم دیا تھا کہ 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کروائے جائیں تاہم14مئی کی ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن نے 3 مئی کو الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائرکی تھی۔ درخواست میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے انتخابات میں تاریخ دینے پر اعتراض اٹھایا تھا۔
سپریم کورٹ نے 15 مئی کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کیا تھا۔ الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل، پنجاب حکومت سمیت سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔