عمران خان نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا

درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کرپٹ پریکٹسز اور نااہلی کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں نااہل قرار دینے کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

درخواست میں کیس آج ہی سننے کی استدعا کی گئی ہے جب کہ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن  نے رابطہ کئے جانے کے باوجود ابھی تک تفصیلی فیصلے کی کاپی فراہم نہیں کی۔

سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے نااہلی کے فیصلے کو آج چیلنج کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کی نااہلی پر احتجاج: پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کے توشہ خانہ ریفرنس سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں عدالت عالیہ سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ کیس کی سماعت آج ہی کی جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کرپٹ پریکٹسز اور نااہلی کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

عمران خان کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے درخواست دائر کی ہے۔

ذرائع کے مطابق عمران خان کی عدالت عالیہ میں دائر کی گئی درخواست میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کی کاپی منسلک نہیں ہے بلکہ فیصلہ کی کاپی کی جگہ الیکشن کمیشن میں فیصلے کے نقل کے لئے دائر درخواست کی رسید منسلک کی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے درخواست پر اعتراض لگایا ہے کہ عمران خان نے بائیو میٹرک تصدیق نہیں کرائی جبکہ نااہلی کے فیصلے کی مصدقہ نقل بھی منسلک نہیں کی گئی۔

عمران خان کے وکیل علی محمد بخاری توشہ خانہ کیس میں سنائے گئے فیصلے کی کاپی کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن پہنچے ، جہاں میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن سے تفصیلی فیصلہ کی کاپی کے حصول کے لئے گزشتہ روز اور آج بھی الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا گیا تھا، تاہم اب تک تفصیلی فیصلے کی کاپی فراہم نہیں مل سکی۔

ان کا کہنا تھاکہ کہ جب الیکشن کمیشن سے کاپی فراہمی کی بابت دریافت کیا گیا تو الیکشن کمیشن کے شعبہ قانون نے فیصلے پر ایک ممبر کے دستخط نہیں ہونے کا عذر پیش کیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ فیصلے کی کاپی فراہم  نہ کیا جانا قانون کی خلاف ورزی ہے۔

میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ اگر ایک ممبر کے دستخط نہیں تو فیصلہ کو کیسے متفقہ کہا جاسکتا ہے؟۔

متعلقہ تحاریر