سپریم کورٹ کے پاس نیب قانون کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ بھی آپشن موجود ہیں

سپریم کورٹ میں نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی، حکومتی وکیل نے کہا کہ نیب قانون میں ترمیم کے وقت ارکان اسمبلی کی اکثریت نے منظوری دی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون سازی کے وقت اپوزیشن کا ہونا ضروری ہے

سپریم کورٹ نے نیب ترمیم کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے موقع پرریمارکس دیئے کہ عدالت کے پاس نیب قانون کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ بھی آپشن موجود ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پرسماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ بھی آپشن موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

نیب ترمیمی بل 2022 سینیٹ سے بھی کثرت رائے منظور، اپوزیشن کا احتجاج

چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈرز قابل احتساب ہیں۔ اگر حالیہ ترامیم سے احتساب کا معیار گرا تو عدالت انہیں کیسےبرقرار رکھ سکتی ہے؟۔عدالت عظمٰی نے کہا کہ ہمارا معاشرہ کرپشن کی بیماری کا شکار ہے۔

 وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون میں ترمیم کے وقت ارکان اسمبلی کی اکثریت نے منظوری دی۔ اس وقت 159 ارکان اسمبلی موجود تھے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سازی کے وقت اپوزیشن کا ہونا ضروری ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایسی کوئی پہلے مثال موجود ہے کہ رکن پارلیمنٹ نے قانون سازی کو چیلنج کیا ہو؟۔

وکیل نے جواب دیا کہ میرے سامنے ایسا کوئی کیس نہیں جس میں رکن پارلیمنٹ نے قانون چیلنج کیا ہو۔ درخواست گزار نہ صرف رکن پارلیمنٹ ہے بلکہ ملک کا وزیراعظم بھی رہا ہے۔ میں اپنے دلائل میں درخواست گزار کی بدنیتی اور ذاتی مفاد کی بھی وضاحت کروں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  موجودہ کیس میں نیب قانون کی بہتری دیکھ رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ قانون کو کالعدم ہی قرار دیا جائے۔ قانون کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ بھی عدالت کے پاس آپشن موجود ہیں۔ قانون کو آئین کے مطابق ہونے پر ہی آگے بڑھنا چاہیئے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون کو آئین کے مطابق ہونے پر ہی آگے بڑھنا چاہئے،عدالتیں سیاسی فیصلے کرنے کی جگہ نہیں ہیں، عدالت متنازع معاملات پر فیصلے کرنے لگے تو کیا مزید تنازعات پیدا ہوتے ہیں؟

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ججزعوامی اعتماد کے ضامن اور قابل احتساب ہیں، ججز پیسے کے قریب بھی نہیں جا سکتے، سپریم کورٹ کو ایک معاملے میں فنڈز ملے وہ اسٹیٹ بنک میں جمع کرا دیئے،آج بھی انتظارکر رہے ہیں کہ فنڈز استعمال ہوں۔عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے عدالت نے آئین کا دفاع اور تحفظ کیسے کرنا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہوئیں تو ہی عدالت آپشنز پر غور کرے گی۔وکیل بولے کوئی بھی ایسا قانون قائم نہیں رہ سکتا جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔

یہ بھی پڑھیے

القادر یونیورسٹی ارضی کیس: نیب کا زلفی بخاری کو تیسرا نوٹس، دستاویزات بھی طلب

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ایک معاملے میں فنڈز ملے وہ اسٹیٹ بینک میں جمع کرا دیے۔ آج بھی انتظار کر رہے ہیں کہ فنڈز استعمال ہوں۔ اگر سپریم کورٹ فنڈز کی تفصیلات اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر نہ ڈالتی تو آج بھی تنقید ہو رہی ہوتی۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اعتماد بہت اہم ہوتا ہے۔ عدلیہ بھی پارلیمنٹ اور سیاستدانوں پر اعتماد کرے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کو پارلیمنٹ پر اعتماد ہے مگر عوام کا اعتماد عدلیہ پر ہے۔ کچھ بنیادی لوازمات ہیں جس پرعدالت نے بھی عمل کرنا ہے۔مقدمہ کی مزید سماعت کل 12 جنوری  تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ تحاریر