عبدالقدوس بزنجو بلوچستان اسمبلی کے بلامقابلہ قائد ایوان منتخب
سردار بابر موسیٰ خیل کو اسپیکر بلوچستان اسمبلی منتخب کرلیا گیا۔
میرعبدالقدوس بزنجو کی کئی ماہ کی کوششیں ثمر آور ثابت ہوئیں اور وہ دوسری مرتبہ نہ صرف وزیر اعلیٰ کو منصب سے ہٹانے میں کامیاب رہے بلکہ دوسری بار وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی بن گئے۔ ان کے مقابلے پر کسی نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے تھے۔
قائد ایوان کے انتخاب کے لیے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلی بننے کے لئے 33 ووٹ کی ضرورت تھی تاہم انہوں نے 39 ووٹ حاصل کرلئے اور بلا مقابلہ قائد ایوان منتخب ہو گئیں۔وہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کے استعفے کے بعد اسپیکر کے منصب سے مستعفی ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
کالعدم تنظیم کا مارچ، وفاقی وزرا کے متضاد بیانات
بلوچستان اسمبلی اجلاس میں بی این پی ، جے یو آئی ، پشتونخوا میپ کے اراکین اور نواب اسلم رئیسانی نے شرکت نہیں کی۔ نواب ثنا اللہ زہری نے میر عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا۔
عبدالقدوس بزنجو کے مقابلے پر کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا۔
ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کا کہنا تھا کہ مقررہ وقت کے دوران قائد ایوان کیلئے پانچ کاغذات نامزدگی فارم اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروائے گئے اور یہ پانچوں کاغذات میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سےجمع کروائے گئے جبکہ کسی اور رکن نے قائد ایوان کے لیے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔ تمام کاغذات جانچ پڑتال کے بعد درست قرارپائے۔یوں وزیراعلیٰ کے عہدے کیلئے صرف ایک ہی امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو رہ گئے تھے۔ صوبے کے 18ویں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے وہ آج جمعہ کی شام گورنر ہاؤس میں حلف اٹھائیں گے۔ ظہور احمد آغا گورنر بلوچستان ان سے حلف لیں گے۔
عبدالقدوس بزنجو بلامقابلہ وزیر اعلیٰ منتخب
میر عبدالقدوس بزنجو کے مقابلے میں کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا مگر اس کے باوجود نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے آئینی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا جس میں میر عبدالقدوس بزنجو اکثریت ثابت کرکے وزیر اعلی بلوچستان بن گئے۔انہوں نے 39 ووٹ حاصل کیے
پہلے ثناء اللہ زہری اور اب جام کمال کی جگہ وزیر اعلی بنے۔
عبدالقدوس بزنجو نے آج سے تقریباً پونے چار سال پہلے جنوری 2018کو بھی اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ اور مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ن کے منحرف اراکین سے مل کر عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی تھی۔جس پر نواب ثناء اللہ زہری وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفیٰ ہوگئے تھے۔
یوں میر عبدالقدوس بزنجو وزیراعلی بلوچستان بن گئے تھے اور چھ ماہ تک اس منصب پر فائز رہے تھے۔2013ء میں وہ دوسری مرتبہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر آواران سے رکن بلوچستان اسمبلی اور وزیر اعلی بننے سے پہلے صوبائی اسمبلی کےڈپٹی سپیکر بنے تھے۔
قدوس بزنجو جب 544 ووٹ لیکر رکن اسمبلی منتخب ہوئے
میر عبدالقدوس بزنجو جب پہلی بار وزیر اعلی بنے تو ان پر کم ووٹ کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی کیونکہ کہ ان کے حلقہ انتخاب ضلع آواران میں امن و امان کی خراب صورتحال اور کالعدم تنظیموں کی طرف سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا تھا اور میر عبدالقدوس بزنجو صرف 544 ووٹ لے کر بلوچستان اسمبلی کے رکن بننے میں کامیاب ہوئےتھے۔
جام کمال اور عبدالقدوس بزنجو نے بی اے پی کی بنیاد رکھی۔
میر عبدالقدوس بزنجو اور جام کمال نے 2018کے انتخابات سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے نئی جماعت تشکیل دی جس میں مسلم لیگ ن اور ق لیگ کے منحرف اراکین کو شامل کیا گیا جبکہ اس میں دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہوئے۔اس نئی جماعت نے 2018ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی 24 نشستیں حاصل کیں اور یوں بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بنی گئی۔
جام کمال سے اختلافات کیسے ہوئے۔؟
انتخابات 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے عبدالقدوس بزنجو آواران سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلے بی اے پی کی صدارت اور پھر وزارت اعلیٰ کے منصب پر اختلافات پیدا ہوئے۔ میر عبدالقدوس بزنجو کوششوں کے باوجود وزیر اعلیٰ نہ بن سکے اور انہیں سپیکر بلوچستان اسمبلی کے عہدے کے لیے راضی کیا گیا۔اسپیکر کا منصب سنبھالنے کے بعد بھی دونوں رہنماؤں میں فاصلے بڑھتے چلے گئے اور اس حوالے سے خبریں ذرائع ابلاغ میں بھی آتی رہیں۔بلوچستان میں پہلی مرتبہ حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی نےحکومتی پالیسیوں کے خلاف اسمبلی کے باہر بھی احتجاج کیا۔جس پر ان کے خلاف فوجداری مقدمات درج کئے گئے، بلوچستان اسمبلی کے حزب اختلاف کے اراکین کوئٹہ کے بجلی گھر تھانے میں مقدمات واپس لئے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے دو ہفتےاحتجاج پر بیٹھے رہے۔
عبدالقدوس بزنجو کی اپنی ہی جماعت کے وزیر اعلی کے خلاف صرف تحریک
میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنی ہی جماعت کے وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک چلائی جسے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل ہوتی چلی گئی اور یوں وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس پر ووٹنگ سے ایک روز قبل مستعفی ہوگئے۔
بلوچستان اسمبلی میں پارٹی پوزیشن۔
بلوچستان میں سب سے بڑی جماعت پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 24 ہے جبکہ حکومت میں شامل دیگر جماعتوں میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 7, عوامی نیشنل پارٹی کی ارکان 4،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 2 اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن شامل ہیں۔جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد 23 ہے۔جن میں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہے۔
میر عبدالقدوس بزنجو کا سیاسی کیریئر۔
میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے جھاؤ میں 1974کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر عبدالمجید بزنجو مرحوم علاقے کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم جھاﺅ کے سرکاری سکول سے حاصل کی جبکہ میٹرک اور ایف ایس سی کی تعلیم کوئٹہ کے مختلف تعلیمی اداروں سے مکمل کی۔انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے پرائیویٹ گریجوئیشن اور نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے انگلش لینگویج میں ڈپلومہ کیا۔
عبدالقدوس بزنجو 2002ء میں آواران سے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ 2007ء تک جام کمال کے والد جام محمد یوسف کی کابینہ میں وزیر امور حیوانات رہے۔ 2013ء میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر دوسری مرتبہ آواران سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے اور ڈپٹی سپیکر بنے۔