تین روزہ لاہور لٹریری فیسٹیول اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا

تین روزہ فیسٹیول میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر معروف مفکرین اور اسکالرز نے شرکت کی ، جن کے کام اور آوازیں سرحدوں کے پار گونجتی ہیں۔

لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں 10واں لاہور لٹریری فیسٹیول کا آج آخری روز ، فیسٹیول میں قومی و بین الاقوامی مندوبین نے بھرپور شرکت کی۔

شہر لاہور تیری رونقیں آباد رہیں ، فروری کا مہینہ آتے ہی لاہور میں جہاں بہار کا موسم عروج پر ہوتا ہے وہیں ادب ثقافت کے رنگوں سے سجے ادبی میلے ان رونقوں کو دوبالا کردیتے ہیں۔

لاہور میں ہونیوالے پاکستان لٹریچر فیسٹول ، فیض میلے کے بعد اب تین روزہ لاہور لٹریری فیسٹول کا انعقاد ہوا، یہ فیسٹیول ہر سال اکیسویں صدی کے روشن ذہن ادیبوں کو نہ صرف ایک جگہ اکٹھا کرتا ہے بلکہ ان کے مکالموں، بصیرت افروز گفتگو سے ذوق رکھنے والوں کی ادبی تشنگی بجھانے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مظفر گڑھ میں سستے آٹے کیلیے ذلیل و خوار ہونے والے شہریوں پر لاٹھی چارج

ہم بحیثیت قوم پاگل پن کی حد تک قدامت پسند ہو چکے ہیں، مستنصر حسین تارڑ

تین روزہ فیسٹیول میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر معروف مفکرین اور اسکالرز نے شرکت کی ، جن کے کام اور آوازیں سرحدوں کے پار گونجتی ہیں۔

اس سال کے مقررین میں عبدالرزاق گرنہ ( 2021 ادب نوبل انعام یافتہ )، شیہان کروناتیلا کا (سیون مون آف مالی المیڈا پر 2022 بکر پرائز انعام یافتہ )، ڈیمن گالگٹ (2021 بکر پرائز برائے دی پرومیس)، محسن حامد (دی لاسٹ وائٹ مین ) سمیت بہت سی معروف شخصیات شامل تھے۔

فیسٹیول کے اس ایڈیشن میں پرفارمنسز، اسکریننگ، کتابوں کی رونمائی ، آرٹ نمائش بھی پیش کی گئی۔

فیسٹیول کا پہلا روز

فیسٹیول کے پہلے روز کا آغاز دوپہر ڈھائی بجے افتتاحی تقریب سے ہوا، ادب کے نوبیل انعام یافتہ عبدالرزاق گرنہ اظہار خیال کیا گیا ، جس کے بعد ایک اور سیشن میں معروف مصنف اور اداکار مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ ایچ ایم نقوی اور اسامہ صدیقی نے تبادلہ خیال کیا۔

پہلے روز ایک اور سیشن میں سارہ سلہری کی خودنوشت پر گفتگو سمیت مختلف کتابوں کی رونمائی بھی شامل ہے جبکہ ایک سیشن میں تاریخ کے جھروکوں پر بھی نظر ڈالتے ہوئے فن تعمیرات کے شعبے میں اسلامی تاریخ اور یورپ سے متعلق بات کی گئی۔

اسی طرح فلم و آرٹ کے سیشن میں نامور فلمساز اور اداکار جمیل دہلوی ، شاہد زاہد اور نسرین رحمان نے شرکت کی۔

فیسٹیول کے پہلے روز معروف فارسی شاعر ابوالقاسم فردوسی کے شاہنامہ پر بات کی، جبکہ سفرناموں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

فیسٹیول کا دوسرا روز

فیسٹیول کے دوسرے روز بھی بہت سے سیشنز ہوئے ، ” ان کرکٹ وی ٹرسٹ "کے نام سے کتاب کی رونمائی ہوئی، جس میں پاکستان میں کرکٹ ، ہماری قوم، پہچان اور سیاست پر بات ہوئی ہے۔ مصنفین میں علی خان اور بشری اعتزاز شامل تھے۔

ایک اور سیشن غالب کی شاعری پر ہوا، جس میں حجاز نقوی ، انجم الطاف اور فیصل صدیقی شامل ہوئے، اسی طرح صاحبزادہ یعقوب خان ، شہباز تاثیر کی کتاب رونمائی بھی فیسٹیول میں شامل تھے۔

"حرف بہ حرف ” کے نام سے سے سیشن میں جدید دور کے تراجم اور جملہ سازی پر گفتگو ہوئی جس میں انٹرنیشنل بکر پرائز انعام یافتہ ڈیلسی راک ویل ، نسرین رحمان اور فیصل صدیقی نے تبادلہ خیال کیا۔

مختلف ممالک کے قصے کہانیاں ، سفرنامے ، فوٹوگرافی پر مشتمل سیشنز بھی فیسٹیول کا حصہ تھے ، جس میں نامور شخصیات نے سیر حاصل گفتگو کی۔

فیسٹیول میں صرف ادب اور شاعری ہی نہیں بلکہ ملکی حالات پر بات کرنے کیلئے ایک سیشن "Power Failure  ” کے موضوع پر ہوا جس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، اقوام متحدہ کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی اور معروف کاروباری شخصیت میاں منشا تبادلہ نے خیال کیا۔

فیسٹیول کا تیسرا روز

فیسٹیول کے تیسرے روز کا آغاز "ناول کی تشکیل کیا ہے؟” کے عنوان سے ہوا جس میں فکشن رائٹرز ناول کے کرداروں اور سیاق و سباق پر گفتگو کی ، شرکاء میں سری لنکن رائٹر شاہین کروناتکلا ، محسن حامد اور ایچ ایم نقوی اور ندیفہ محمد شامل تھے۔

مفکر پاکستان علامہ اقبال کی شاعری پر سیشن "شعریات اقبال” ہوا جبکہ "شاعری کی روایات” کے عنوان پر سیشن میں معروف مصنف  افتخار عارف ، سیدہ حمید ، کشور ناہید اور زہرہ نگاہ تبادلہ خیال کیا۔

فیسٹیول کے تیسرے روز معروف شاعر امجد اسلام امجد اور صداکار ضیا محی الدین کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا۔

تیسرے روز کتاب "فلسسطین کی لٹریری فورس” کے عنوان پر فلسطینی مصنفہ ادانیہ شبلی نے اظہار خیال کیا ، علاوہ ازیں آرٹ ، تعلیم ، شاعری، ثقافت اور مذہب پر اندرون و بیرون ممالک سے آئے ہوئے مصنفین نہ صرف گفتگو کی بلکہ مختلف کتابوں کی رونمائی بھی فیسٹیول کا حصہ تھے۔

فیسٹیول کے آخری روز پاکستانی نژاد ماہر تعمیرات سنیتا کوہلی essay and illustrated Talk کے عنوان پر بات کی جبکہ ثقافتی جنگ ، زبان اور کثیر ثقافتی معاشروں کے موضوع پر گفتگو بھی فیسٹیول میں شامل تھے۔

نیوز 360 نے لاہور لٹریری فیسٹیول میں صدر آرٹس کونسل پاکستان کے صدر احمد شاہ اور دیگر شرکاء کا کہنا تھا کہ ایسی تقریبات وقت کی ضرورت ہے جہاں مختلف موضوعات پر بات ہوتی ہے اور مختلف ثقافتوں کے ساتھ ساتھ ادب پر بات ہوتی ہے اور ایسی تقریبات دیگر چھوٹے شہروں میں بھی ہونی چاہئیں۔

متعلقہ تحاریر