سندھ کی آبادی 2050 تک 9کروڑ 57 لاکھ تک پہنچ جائے گی

  اگر مانع حمل ادویہ کا استعمال 31 فیصد سے بڑھ کر 49 فیصد ہو جائے تو ایک ہزار  مائیں اور 34ہزار  شیر خوار بچے بچ جائیں گے، وفاقی وزارت منصوبہ بندی کے تعاون سے کراچی میں منعقدہ ورکشاپ میں پیش کردہ اعداد و شمار

سندھ کی آبادی 2022 تک 5 کروڑ 63لاکھ نفوس پر مشتمل تھی جو کہ 2050 تک بڑھ کر 9کروڑ 57لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے۔

صوبے میں صحت کی ناکافی سہولتوں  کی وجہ سے زچگی کے دوران  سالانہ 3ہزاراموات ہوتی ہیں تاہم مانع حمل ادویہ کا استعمال31 فیصد سے بڑھا کر  49 فیصد کرنے سے اس تعداد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں 14 فیصد سے 20 فیصد تک اضافہ کر دیا

خیبرپختونخواکا سب سے بڑا لیڈی ریڈنگ اسپتال دیوالیہ ہوگیا

یہ اعداد وشمار جمعرات کو کراچی میں وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی، ترقیات اور خصوصی اقدامات کی جانب سے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یواین ایف  پی اے) کے تعاون سے منعقدہ  مشاورتی ورکشاپ میں  پیش کیے گئے۔

ورکشاپ کے شرکاکو بتایا گیا کہ سندھ  میں زچگی کی  مجموعی شرح3،6 ہے اور یہی اضافی شرح بچوں کی اموات اور غذائی کی  اہم وجہ ہے، اس کے  نتیجے میں سالانہ ہزار میں سے 60 بچےاپنی پہلی سالگرہ  سے قبل ہی انتقال کرجاتے  ہیں جبکہ 5  سال سے کم عمر 50 فیصد بچےنشوو نما میں رکاوٹ کاشکار ہیں۔

شرکاکو بتایا گیا  فی الحال، سندھ میں 5سے16 سال کی عمر کی نصف سےزائد(51 فیصد) لڑکیاں جبکہ  39 فیصد لڑکےتعلیم سے محروم ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی، خواتین کو بااختیار بنانے اور تعلیم میں سرمایہ کاری کے بغیر بڑھتی ہوئی آبادی کوکھپانا مشکل ہوگا۔

مشاورتی ورکشاپ  کے شرکا  نے خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے، تولیدی صحت اور تولیدی حقوق، آبادی اور پائیدار ترقی، تعلیم، خوراک کی حفاظت، موسمیاتی تبدیلی، شہر کاری اور اندرونی نقل مکانی پر پیش رفت کو تیز کرنے میں درپیش  مسائل  اور آگے بڑھنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے علاوہ  مختلف سیشنز  میں حصہ لیا۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈسندھ کی سربراہ بیرم گل گرابائیفا نے کہاکہ مشاورت کا عمل  انسانی حقوق، آبادی، جنسی اور تولیدی صحت، صنفی مساوات اور پائیدار ترقی کے بارے میں متنوع نظریات کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ  ان مشاورتوں  کو ایک قابل ذکر اتفاق رائے میں ضم کر دیا جائے گا جو انفرادی وقار اور  انسانی حقوق   بشمول خاندانی منصوبہ بندی کے حق کو ترقی کا مرکزشمار کرتا ہے۔

متعلقہ تحاریر